کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 41
اور ہمارے قول : ’’بصیغۃ مخصوصۃ ھي المضارع …‘‘ سے وہ (امور ) خارج ہوئے جو فعل سے رک جانے پر صیغہ ء امر کے ساتھ دلالت کرتے ہوں ‘ جیسے : ’’ دع ، أترک ، کف ۔‘‘ اور اس طرح کے دوسرے صیغے ۔اس لیے کہ اگرچہ ان الفاظ میں بھی کسی فعل سے رک جانا طلب کیا جاتا ہے ، مگر یہ صیغہ امر کے ساتھ ہونے کی وجہ سے امر شمار ہوتا ہے ‘ نہی شمار نہیں ہوتا۔ کبھی صیغہ نہی کے علاوہ بھی فعل سے رک جانا مستفاد ہوتا ہے ‘ مثال کے طور پر : ’’ کسی فعل کا وصف حرام ہونا ، یا محظور ہونا ‘ یا قبیح ہونا بیان کیا جائے۔ یا اس ( فعل ) کے کرنے والے کی مذمت بیان کی جائے ، یا اسکے کرنے پر سزا (عقاب ) مرتب ہو‘ اور اس طرح کے دیگر الفاظ[1] صیغۂ نہی کا مقتضی : صیغہ ء نہی اپنے اطلاق پر منہی عنہ کے حرام اور فاسد ہونے کا تقاضا کرتاہے۔ اس بات کے دلائل کہ صیغہء نہی تحریم کا تقاضا کرتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا ﴾ (الحشر:۷)
[1] ( علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس پر یہ تعلیق درج کی ہے: جس فعل کو حرام سے موصوف کیا گیا ہے ‘ اس کی مثال ؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿أحل اللہ البیع و حرم الربوٰا﴾ ’’ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے ۔‘‘ قبح سے موصوف کی مثال : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ ثمن الکلب خبیث‘‘ … ’’کتے کی قیمت خبیث ہے ۔‘‘ فاعل کی مذمت کی مثال : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کا ذکر کرنے کے بعد ’’بئس ‘‘ یعنی ’’برا ہے ‘‘ فرمانا۔ جس کے کرنے پر عقاب مرتب ہوتا ہو‘ اس کی مثال : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْماً إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِیْ بُطُونِہِمْ نَاراً وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْراً﴾ (النساء:۱۰) ’’ جو لوگ یتیموں کا مال ناجائز طور پر کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔‘‘