کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 38
’’تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔ ہم نے ظالموں کیلئے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے۔‘‘ امر مذکور کے بعد وعید کا ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تہدید ہے۔ اور کبھی امر فوری سے تراخی [دیر]کی طرف نکلتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ : ’’ رمضان کی قضاء مامور بہ ہے۔ لیکن دلیل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ تراخی کے لیے ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ‘ وہ فرماتی ہیں : مجھ پر کبھی رمضان کے روزے ہوتے ‘ اور میں شعبان سے پہلے یہ روزے قضا نہ کرسکتی۔[1] اور ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزلت کی وجہ سے ہوتا۔[2] اگر تاخیر حرام ہوتی تو اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بر قرار نہ رکھا جاتا۔ [3] وہ جس کے بغیر مامور بہ پورا نہیں ہوسکتا : جب مامور بہ فعل کسی چیز پر متوقف ہو تو وہ چیز بھی مامور بہ ہوجاتی ہے۔ اگر ماموربہ واجب ہو تو وہ چیز بھی واجب ہوجائے گی ‘ اور اگر مامور بہ مندوب ہو تو وہ چیز بھی مندوب ہوگی۔ واجب کی مثال : ’’ شرم گاہ کا پردہ کرنا ( نماز میں اور نماز سے باہر) واجب ہے،پس
[1] اس عذرسے مراد بدنی قوت کی نفی نہیں ؛ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزلت اور محبت کا خیال ہے ؛اس رعایت سے فریضہ ساقط نہیں ہوتا)۔ اس لیے ( قاعدہ یہ ہے کہ ): ’’کل عبادۃ ذات وقت موسع ‘ ھي علی التراخي مادام وقتہا باقی۔‘‘’’ہر وہ عبادت جس کا وقت موسع ہو‘ وہ تراخی پر محمول ہوگی‘ جب تک اس کا وقت باقی ہے ۔‘‘ فائدہ: مؤقت واجب وقت کے فوت ہوجانے سے ساقط نہیں ہوجاتا ؛بلکہ اسے پہلی فرصت میں ادا کرنا ہوگا۔ ’’ ہر وہ چیز جس کا ذمہ میں ہونا ثابت ہوجائے ‘ اس کے ذمہ سے برأت سے دو امور سے ممکن ہے : (۱)… یہ کہ اس ذمہ داری کو ادا کردیا جائے ۔(۲)… یہ کہ اس پر جو آدمیوں کے حقوق ہیں ‘ ان سے برأت حاصل کرلی جائے ۔ [2] بخاری (۱۹۵۰) کتاب الصوم (۴۰)؛ متی یقضی قضاء رمضان ) و مسلم ۱۱۴۶؛ کتاب الصیام۲۶ ‘ باب قضاء رمضان فی شعبان ۔ [3] خواہ اس بات کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو یا نہ ہو؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو جانتا تھا ‘ وہ حرام پر برقرار نہ رکھتا ‘ اس کے لیے فوراً کوئی نہ کوئی حکم نازل ہوجاتا۔