کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 37
اس چیز کے جواب میں ہو جس کے متعلق محظور ہونے کا وہم ہو۔ حظر[ممانعت] کے بعد کی مثال : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُواْ ﴾ (المائدہ:۲)
’’اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو۔‘‘
یہاں پر شکار کرنے کا حکم اباحت کے لیے ہے ‘ کیونکہ یہ حضر [ممانعت]کے بعد واقع ہوا ہے ‘ جو اللہ تعالیٰ کے اس قول سے مستفاد ہے :
﴿غَیْرَ مُحِلِّیْ الصَّیْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ﴾ (المائدہ:۱)
’’ مگر شکار کو حلال نہ جاننا اور تم حالت احرام میں ہو ۔‘‘
اس چیز کے جواب میں ہونے کی مثال جس کے متعلق محظور ہونے کا وہم ہو؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: ’’ افعل و لا حرج ‘‘…
’’ کرتے جائیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘[1]
یہ ان لوگوں کے جواب میں ہے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع کے موقع پر یوم عید میں کیے جانے والے افعال کی بعض کی بعض پر تقدیم وتاخیر کے متعلق سوال کیا تھا۔
۳…: تہدید: جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ ﴾ (حم السجدہ:۴۰)
’’ جو چاہو سو کر لو جو کچھ تم کرتے ہو وہ اس کو دیکھ رہا ہے۔‘‘
اور فرمایا :
﴿فَمَنْ شَائَ فَلْیُؤْمِن وَمَنْ شَائَ فَلْیَکْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِیْنَ نَاراً﴾
[1] اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے (۸۳)؛ کتاب العلم (۲۳)؛ باب الفتیا؛ وہو واقف علی الدابۃ وغیرہا ۔مسلم (۱۳۰۶) کتاب الحج (۵۷)؛ باب من حلق قبل النحر ‘ اور نحر قبل الرمي ۔(الکہف:۲۹)