کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 35
(قاعدہ) : صیغہ امر عند الاطلاق ’’ مامور بہ کے واجب ‘‘ ہونے کا تقاضا کرتا ہے، [1] اور اس فعل کو فوراً ادا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘( اس پر سمعی ‘ نظری اور عرفی دلائل موجود ہیں ‘ تکرار کی ضرورت نہیں ہے)۔ (مترجم )
اس کے واجب کے مقتضی ہونے کے دلائل میں سے ‘ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَن تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ﴾ (النور:۶۳)
’’ جو لوگ آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو۔‘‘
اس سے استدلال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے کو اس بات سے ڈرایا ہے کہ انہیں کوئی (آزمائش ) فتنہ گھیر لے۔ اور یہ فتنہ کجی (گمراہی) ہے ۔یا انہیں دردناک عذاب پکڑ لے۔ اور اس جیسی تحذیر (دھمکی / ڈراوا ) صرف واجب کے ترک کرنے پر ہی ہوسکتا ہے۔ سو یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ مطلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مامور بہ کے واجب ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔
اور اس بات کی دلیل کہ یہ فوری ادائیگی پر دلالت کرتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿ فَاسْتَبِقُواْ الْخَیْرَاتِ﴾ (البقرہ:۱۴۸)
’’ تم نیکیوں میں سبقت حاصل کرو۔‘‘
اور شرعی مأمورات خیر اور نیکی کے کام ہیں ۔ان کی طرف سبقت حاصل کرنے کا حکم
[1] اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے۔