کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 31
اگر یہ تعلق مشابہت کے علاوہ کچھ ہو تو ایسے مجاز کو ’’ مجاز مرسل ‘‘ کہتے ہیں ، اگر یہ مجاز کلمات میں ہو۔ اور اگر سند میں ہو تو اسے ’’ مجاز عقلی‘‘ کہتے ہیں ۔
مجاز مرسل میں اس کی مثال : ’’ جیسے آپ کہیں کہ :’’ ہم نے بارش کی رعایت (نگہبانی ) کی ‘‘ ۔یہاں پر ’’بارش ‘‘ مجاز ہے گھاس وغیرہ سے ؟ یہ مجاز کلمہ میں ہے۔
اور مجاز عقلی میں اس کی مثال : ’’ جیسا کہ آپ کہیں کہ: ’’ انبت المطر العشب ۔‘‘ بارش نے گھاس پیدا کی۔ پس تمام کلمات سے ان کی حقیقت ہی مراد لی گئیہے۔ لیکن گھاس اگنے کی نسبت بارش کی طرف کرنا مجازاً ہے۔ کیونکہ حقیقت میں پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ سویہ مجاز سند ( نسبت ) میں ہے۔
مجاز مرسل میں سے : ’’ زیادہ سے مجاز ‘‘ لینا اور حذف سے مجاز لینا ہے۔
زیادہ سے مجاز کی مثال یہ بیان کی گئی ہے : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْء ٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ ﴾ (الشوری:۱۱)
’’ اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ دیکھتا اور سنتا ہے۔‘‘
سو کہتے ہیں کہ :’’ بیشک اس جملہ میں ’ اللہ تعالیٰ کی مثل کی نفی کی تاکید کے لیے ’’کاف ‘‘ زائد ہے۔ ( یہ زیادہ اعراب میں ہے معنی میں نہیں )۔
حذف سے مجاز کی مثال : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَاسْأَلِ الْقَرْیَۃَ ﴾ (یوسف:۸۱)
’’ اور بستی سے دریافت کر لیجئے۔‘‘
اس سے مراد یہ ہے کہ :’’ اہل بستی ‘‘ سے دریافت کیجیے۔ یہاں پر لفظ ’’ أھل ‘‘ کو مجازاً حذف کیا گیا ہے۔ مجاز کی بہت ساری قسمیں ہیں جنہیں علم ِ بیان میں بیان کیا گیا ہے۔
ان میں سے حقیقت اور مجاز کی کچھ اقسام اصول فقہ میں بیان کی گئی ہیں ۔ کیونکہ الفاظ کی دلالت یا تو حقیقی ہوتی ہے یا مجازی۔ تو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ان میں سے ہر ایک کی معرفت اور اس کاحکم معلوم کیا جائے۔ واللہ اعلم۔