کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 30
ہو۔‘‘
ہمارے قول ’’ عرف میں ‘‘ سے حقیقت لغوی اور شرعی خارج ہوئے ۔
اس کی مثال : ’’دابہ ‘‘ یعنی چوپایہ ہے۔ بیشک اس کی حقیقت عرفی یہ ہے کہ چار پاؤں والے جانور کو کہا جاتا ہے۔ اہل عرف کے کلام میں اسے اسی پر محمول کیا جائے گا۔
حقیقت کو تین قسموں میں تقسیم کرنے کی معرفت کا فائدہ یہ ہے کہ ہم ہر لفظ کو اس کے استعمال کے وقت اس کے حقیقی معنی پر محمول کریں ۔ اہل لغت کے استعمال میں لغوی حقیقت پر محمول کیا جائے۔ اور شرع کے استعمال میں شرعی حقیقت پر محمول کیا جائے۔ اور اہل عرف کے استعمال میں عرفی حقیقت پر محمول کیا جائے۔
۲: مجاز :
وہ لفظ ہے جو اپنے غیر موضوع لہ میں استعمال ہو۔ جیسا کہ :’’ اسد(شیر ) کے لفظ کا استعمال بہادر انسان کے لیے۔
ہمارے قول :’’ مستعمل ‘‘ سے مہمل خارج ہوا ‘ اسے نہ ہی حقیقت کہا جائے گا اورنہ ہی مجاز ۔
اور ہمارے قول :’’ غیر موضوع لہ ‘‘ سے حقیقت خارج ہوئی۔
(قاعدہ ) : اور کسی لفظ کو اس کے مجاز میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے ‘ مگر ایسی صحیح دلیل کیساتھ جس کی وجہ سے اس کا حقیقت میں استعمال کرنا ممتنع ہو۔ اسے علم بیان میں قرینہ کہا جاتا ہے ۔‘‘
کسی لفظ کو اس کے مجاز میں استعمال کرنے کی صحت کے لیے شرط یہ ہے کہ :’’ حقیقی اور مجازی معنی میں ارتباط موجود ہو تاکہ اس سے تعبیر کرنا درست ہو۔ اسے علم البیان میں علاقہ (تعلق ) کہا جاتا ہے۔ یہ تعلق یا تو مشابہت ہوگا‘ یا اس کے علاوہ کچھ ہوگا۔
اگر یہ علاقہ مشابہت کا ہے تو اس مجاز کو ’’ استعارہ ‘‘ کہتے ہیں ۔جیسے کسی بہادر انسان کے لیے شیر کا لفظ مجاز میں استعمال کیا جائے۔