کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 29
حقیقت اور مجاز کلام اپنے استعمال کے اعتبار سے دو اقسام میں تقسیم ہوتا ہے : ’’ حقیقت اور مجاز۔‘‘ ۱: حقیقت: وہ لفظ ہے جو اسی چیز میں مستعمل ہو جس کے لیے وہ وضع کیا گیا ہو۔ جیسے : اسد (شیر)‘ چیر پھاڑ کرنے والے جانور کے لیے۔ ہمارے قول :’’ مستعمل ‘‘ سے مہمل خارج ہوا ، اسے نہ ہی حقیقت کہا جائے گا اور نہ ہی مجاز۔ ہمارے قول :’’ جس کے لیے وہ وضع کیا گیا ہو‘‘ سے مجاز خارج ہوا۔ حقیقت کی تین قسمیں ہیں : لغوی ‘ شرعی ، عرفی۔ ۱: لغوی…: وہ لفظ ہے جو لغت میں اپنے موضوع لہ میں ہی مستعمل ہو۔ ہمارے قول ’’ لغت میں ‘‘ سے حقیقت شرعی اور عرفی خارج ہوئے۔ اس کی مثال نماز ہے۔ کیونکہ اس کی لغوی حقیقت دعا ہے ‘ سو اہل لغت کے کلام میں اسے اسی (دعا)پر ہی محمول کیا جائے گا۔ ۲: حقیقت ِ شرعی…: وہ لفظ ہے جو شرع میں اپنے موضوع لہ میں ہی مستعمل ہو۔ ہمارے قول ’’ شرع میں ‘‘ سے حقیقت لغوی اور عرفی خارج ہوئے ۔ اس کی مثال : نماز ہے۔ بیشک اس کی شرعی حقیقت وہ معلوم شدہ اقوال اور افعال ہیں جو تکبیر سے شروع ہوتے ہیں اور تسلیم پرختم ہوتے ہیں ۔ اہل شرع کے کلام میں اسے اسی معنی پر محمول کیا جائے گا۔ ۳: عرفی حقیقت…: ’’وہ لفظ ہے جو عرف میں اپنے موضوع لہ میں ہی مستعمل