کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 27
شدہ خبر۔
دوم: ایسی خبر جس کا وصف سچ ہونا نا ممکن ہو‘جیسے کہ کسی ایسی چیز کی خبر جس کا ہونا شرعاً یا عقلاً مستحیل (محال )ہو۔
پہلی مثال…: جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے نبی ہونے کا دعوی( یا اس کی خبر ) ۔
دوسری مثال…: یعنی دو الٹ چیزوں کے جمع ہونے کی خبر۔ جیسے : ایک ہی چیز میں اور ایک ہی وقت میں سکون اور حرکت کا اجتماع ۔
سوم: وہ جس کے سچے یا جھوٹے ہونے کی خبر برابر ی کی سطح پر دی جاسکتی ہو‘ یا ان دو امور میں سے کوئی ایک امر غالب ہو‘ جیسے کوئی کسی غائب انسان کے آجانے کی خبر دے۔ یا اس طرح کی دیگر خبریں ۔
۲: انشاء : وہ ہے جو کو صدق یا کذب سے متصف نہ کیا جاسکے۔ اسی سے امر اور نہی بھی ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَاعْبُدُواْ اللّٰهَ وَلاَ تُشْرِکُواْ بِہِ شَیْئاً ﴾ (النساء:۳۶)
’’اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کیساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ۔‘‘
کبھی کلام خبر‘ دو اعتبار سے انشاء ہوتا ہے : جیسے ’’ عقود ‘‘ معاملات کے الفظ کے صیغے۔ مثلاً : ’’ بعت ُ و قبلتُ۔ بیشک یہ الفاظ عاقد کے نفس میں موجودامر کے اعتبار سے خبر ہیں ‘ لیکن اس پر عقد کے مرتب ہونے کے اعتبار سے انشاء ہیں ۔
اور کبھی کلام خبر کی صورت میں آتاہے مگر انشاء کا فائدہ دیتا ہے ‘ اور کبھی کسی فائدہ کے لیے اس کا عکس بھی ہوتا ہے ۔
پہلی مثال: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوَئٍ ﴾ (البقرۃ:۲۲۸)
’’ اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے تئیں روکے رہیں ۔‘‘