کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 26
(قاعدہ ) : فعل اپنی تمام تر اقسام میں اطلاق (مطلق ہونے ) کا فائدہ دیتا ہے ‘ اس کا کوئی عموم نہیں ہے۔ ج: وہ ہے جو کسی دوسرے کے معنی پر دلالت کرتا ہو۔ اور اسی سے ہے : ۱: واؤ : یہ عطف کے لیے آتا ہے ‘ اور دو متعاطفین کے درمیان حکم میں اشتراک کا فائدہ دیتا ہے۔ اور یہ ترتیب کا تقاضا نہیں کرتا۔ اور نہ ہی اس کی نفی کرتا ہے ‘ سوائے اس کے کہ اس کی دلیل موجود ہو۔ ۲: فا ء : یہ عطف کے لیے آتا ہے ‘ اور دو متعاطفین کے درمیان حکم میں اشتراک کا فائدہ دیتا ہے۔ ترتیب اور تعقیب کے ساتھ۔ اور کبھی سببیہ بھی آتا ہے ‘ اس وقت تعلیل کا فائدہ دیتا ہے۔ ۳: لام جارہ : اس کے کئی ایک معانی ہیں ‘ ان میں سے : ’’ تعلیل ‘ تملیک ‘ اور اباحت بھی ہیں ۔ ۴: علی جارہ : اس کے بھی کئی معنی ہیں ‘ ان میں سے ایک معنی وجوب کا بھی ہے۔ کلام کی اقسام : کلام کے سچا یا جھوٹا ہونے کے امکانی وصف کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں : خبر اور انشاء ۱: خبر وہ ہے جس کو ذاتی طور پر جھوٹ یا سچائی سے متصف (بیان) کیا جانا ممکن ہو۔ ہمارے قول ’’ جھوٹ یا سچائی سے متصف (بیان) کیا جانا ممکن ہو ‘‘ سے انشاء خارج ہوا ‘ کیونکہ اس میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے مدلول کے بارے میں خبر نہیں دی جارہی ، کہ یہ بات ممکن ہو کہ ہم اس کے بارے میں کہہ سکیں کہ یہ سچ ہے یا جھوٹ ہے ۔‘‘ اور ہمارے قول : (لذاتہ ) ’’ ذاتی طور ‘‘ سے وہ خبر خاج ہوئی جو اس کے خبر دینے والے کے لحاظ سے سچے یا جھوٹے ہونے کا احتمال نہ رکھتی ہو۔ یہ اس لیے ہے کہ خبر دینے والے کے اعتبار سے خبر کی تین قسمیں ہیں : اول: ایسی خبر جس کاوصف جھوٹ ہو نا نا ممکن ہو‘ جیسے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت