کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 25
کلام
کلام کی تعریف:
’’ لغت میں معنی کے لیے وضع کیے گئے لفظ کو کلام کہتے ہیں ۔‘‘
اصطلاح میں …: مفید لفظ کو کہتے ہیں ۔ مثلاً : اللہ ربنا ( اللہ ہمارا رب ہے) ، محمد نبینا ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نبی ہیں )۔
اور کم سے کم مقدار جس سے کلام بنتا ہے : وہ یا تو دو اسم ہیں ‘ یا اسم اور فعل۔
اس کی مثال : ’ ’ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘، اور دوسری مثال : ’’ استقام محمد ۔‘‘ محمد ثابت قدم رہے ۔
کلام کی واحد کلمہ ہے۔ یہ وہ اکیلا لفظ ہے جسے مفرد معنی کے لیے وضع کیا گیا ہو‘ یہ یا تو اسم ہوگا ‘ یا فعل ‘ یا حرف۔
ا: اسم : وہ ہے جو خود اپنے معنی پر دلالت کرے اور اس میں کوئی زمانہ بھی نہ پایا جائے۔ اس کی تین اقسام ہیں :
اول: جو عموم کا فائدہ دیتے ہوں ‘ جیسے اسماء موصولہ ۔
دوم: جو اطلاق ( مطلق ہونے ) کا فائدہ دیتے ہوں ‘ جیسے اثبات کے سیاق میں نکرہ۔
سوم : جو خصوص کا فائدہ دیتے ہیں ‘ جیسے کہ نام۔
ب: فعل : جو خود اپنے معنی پر دلالت کرے‘ اور اس میں تین زمانوں میں سے کوئی ایک زمانہ بھی پایا جائے۔
( یہ تین زمانے ) یا تو ماضی ہوگا جیسے : ’’ فَہِمَ‘‘ اس نے سمجھا ، یا مضارع ہوگا ‘ جیسے ’’ یَفْہَمُ ۔‘‘ وہ سمجھتا ہے یا سمجھے گا ۔‘‘ یا امر ( حکم ) ہوگا جیسے: ’’ إِفْہَمْ ‘‘ سمجھ۔