کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 23
علم
علم کی تعریف:
’’ العلم إدراک الشيء علی ما ہو علیہ إدراکاً جازماً ۔‘‘
’’علم کسی چیز ادراک کرنا کہ جس کیفیت پر وہ موجود ہے اس کا پختہ ادراک کرنا (علم کہلاتا ہے)۔‘‘
جیسے اس بات کا ادراک کہ ’’ کل ، جزء ‘‘ سے بڑا ہوتا ہے۔ اور یہ کہ نیت عبادت میں شرط ہے۔
’’ ہمارے قول :’’ کسی چیز کاادراک ‘‘ سے ، کلی طور پر عدم ِ ادراک خارج ہوا ‘ اسے جہل بسیط کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پوچھا جائے کہ : ’’ غزوہ بدر کب پیش آیا تو جواب میں کہے: ’’ میں نہیں جاتا ۔‘‘
اور ہمارے قول ’’ جس پر وہ موجود ہے ‘‘ سے اس کے وجود کی مخالف کیفیت خارج ہوئی۔ اور اسے جہل مرکب کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ پوچھا جائے کہ:’’ غزوہ بدر کب پیش آیا ؟۔ تو کہا جائے کہ سن تین ہجری میں ۔‘‘
اور ہمارے قول : ’’ پختہ ادراک ‘‘ سے خام (کچا / نا پختہ ) ادراک خارج ہوئے۔ اس طرح سے کہ اس بات کا احتمال اس کے ذہن میں موجود ہو کہ یہ چیز جیسے اس نے پائی ہے اس کے مخالف ہو سکتی ہے۔ اسے علم نہیں کہا جاتا۔ پھر اگر اس کے نزدیک دو احتمالات میں سے ایک راجح ہو تو راجح کو ’’ظن ‘‘ اور مرجوح کو ’’ وہم ‘‘ کہتے ہیں ۔ اور اگر دونوں معاملات برابر ہوں تو اسے شک کہتے ہیں ۔
اس سے واضح ہوا کہ ادراک کاتعلق اشیاء سے کچھ ایسے ہے :