کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 14
ہے اور کبھی ظنی۔ جیسا کہ فقہ کے بہت سے مسائل میں ہے۔ احکام شرعیہ سے ہماری مراد : وہ احکام ہیں جو شریعت سے حاصل کیے جائیں ۔ جیسے کسی چیز کا واجب ہونا یا حرام ہونا۔ اس سے عقلی احکام خارج ہوتے ہیں۔ جیسے اس چیز کی معرفت کہ ’’ کل ‘‘ ’’’جزء ‘‘سے بڑا ہوتا ہے۔ اور عام عادت کے احکام ، جیسے سردی کی راتوں میں شبنم کا برسنا ؛ جب موسم صاف ہو۔ اور ’’ عملی ‘‘ سے ہماری مراد وہ احکام ہیں جن کا تعلق ( غالب طور پر ) عقائد سے نہیں ہوتا۔ جیسے نماز اور زکاۃ۔ اس سے وہ احکام خارج ہوئے جن کا تعلق اعتقاد سے ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کی توحید ‘ اس کے اسماء و صفات کی معرفت۔ اسے اصطلاح میں فقہ سے تعبیر نہیں کیا جائے گا ۔ اور’’ تفصیلی دلائل ‘‘ سے ہماری مراد : فقی دلائل ہیں جن کا تعلق فقہ کے تفصیلی مسائل سے ہوتا ہے۔ اس سے اصول فقہ خارج ہوتا ہے۔ کیونکہ اصول فقہ میں فقہ کے اجمالی دلائل سے بحث ہوتی ہے نہ کہ تفصیلی دلائل سے۔ ثانی…: (اصول فقہ کی تعریف )اس کے ایک متعین فن کا لقب ہونے کے اعتبار سے۔ سو اس کی تعریف یہ بیان کی جاسکتی ہے کہ: ’’علم یبحث عن أدلۃ الفقہ الإجمالیۃ و کیفیۃ الاستفادۃ منہا و حال المستفید۔‘‘ ’’ یہ ایسا علم ہے جس میں فقہ کے اجمالی دلائل، ان سے استفادہ کی کیفیت اور (احکام شرعیہ سے )مستفید کے حال سے بحث کی جاتی ہے ۔‘‘ ’’ اجمالی ‘‘ سے ہماری مراد ’’ عام قواعد ‘‘ ہیں ۔ جیسا کہ (فقہاء کرام کا ) یہ قول : ’’ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے اور نہی تحریم کے لیے۔ اور صحت (امر ) کا تقاضا نفوذ (حکم کا ) ہے۔ اس سے تفصیلی دلائل خارج ہوتے ہیں ۔ ان کا ذکر اصول فقہ میں صرف کسی قاعدہ کے لیے