کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 123
التزام ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ہر امر اور نہی میں غیر النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے واجب ہونے کا کہنا ، اجماع اور اس کے جواز کے خلاف ہے ، اور اس میں جو مفاسد ہیں وہ ظاہر ہیں ۔‘‘[1]
نیز فرماتے ہیں : ’’ جس نے کسی متعین مذہب کا التزام کیا ‘ پھر کسی دوسرے عالم کے فتوی کی تقلید کے بغیر اس کے خلاف کرے‘ اور نہ ہی اس کے پاس کو ئی دلیل ہو‘ جس کا مقتضی اس کے خلاف عمل ہو‘ اور نہ ہی کوئی شرعی عذر ایسا ہو‘ جس کے مقتضی سے اس کے لیے ایسا کرنا حلال ہو‘ تو ایسا انسان خواہشات کا پیروکار ‘ اور بغیر عذر کے حرام کا ارتکاب کرنے والا ہے۔ اور یہ بہت ہی برا کام ہے۔ ہاں اگر اس کے لیے ایسی صورت واضح ہوجائے جس کی وجہ سے ایک قول کو دوسرے پر ترجیح دینا ممکن ہو‘ یا تو مفصل دلائل کی روشنی میں ؛ اگروہ ان دلائل کو جانتا اور سمجھتا ہو۔ یا وہ دیکھے کہ دو آمیوں میں سے ایک اس مسئلہ کے بارے میں دوسرے سے زیادہ جاننے والا ہے۔ اور وہ اپنے کلام میں اللہ تعالیٰ کا زیادہ تقوی بھی رکھنے والا ہے۔ تو وہ پہلے قول سے اس جیسے قول کی طرف رجوع کرے گا ‘یہ جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔ اور امام احمد رحمہ اللہ سے اسی پر واضح حکم موجود ہے۔
۲: خاص : یہ کہ کسی خاص متعین مسئلہ میں کوئی متعین قول کو قبول کرے۔ یہ جائز ہے جب وہ خود اجتہاد کرکے معرفت حق سے عاجز آگیا ہو‘ خواہ یہ عجز حقیقی عجز ہو یہ وہ بہت ہی مشقت سے اس کی استطاعت رکھتا ہو۔
مقلد کا فتوی:
[1] لفتاوی الکبری (۴/۶۲۵)۔ نیز اس میں قرآن و سنت میں تدبر و تفکر ‘ اور ان سے استنباط کے دروازے بند ہونے کا اندیشہ ہے ۔ اس لیے ہر امر وہ نہی میں غیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے واجب ہونے کا کہنا ایک باطل قول ہے۔ جس کا فساد ظاہر ہے ۔