کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 122
ہاں برابر ہوں تو پھر اسے ان دو میں سے کسی ایک کی تقلید کا اختیار حاصل ہے ۔
دوم: مجتہد کے لیے کوئی حادثہ /واقعہ پیش آجائے جس کا فوری حکم مطلوب ہو‘ لیکن اس میں غور وفکر کا وقت (میسر یامناسب ) نہ ہو، تو اس وقت اس کے لیے تقلید جائز ہے۔ اور بعض نے تقلید کے جواز کے لیے شرط لگائی ہے کہ : ’’ وہ مسئلہ ان اصول دین(کے مسائل ) میں سے نہ ہو جن کا اعتقاد رکھنا واجب ہے۔ کیونکہ عقائد کا حتمی ہونا واجب ہے ۔ اور بیشک تقلید ظن کا فائدہ دیتی ہے۔
راجح یہ ہے کہ یہ کوئی مناسب شرط نہیں ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ﴾ (النحل:۴۳)
’’اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل ِعلم سے پوچھ لو ۔‘‘
یہ آیت اثبات ِ رسالت کے سیاق میں ہے۔ اور یہ اصول دین میں سے ہے۔ اور اس لیے بھی کہ عامی کے لیے دلائل کیساتھ حق کی معرفت ممکن نہیں ہے۔جب اس کے لیے خود حق کی معرفت متعذر ہو تو اس کے لیے تقلید کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ (التغابن:۱۶)
’’ سو جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو ۔‘‘
تقلید کی اقسام :
تقلید کی دو قسمیں ہیں : عام اور خاص۔
۱: عام : کسی خاص متعین مذہب کا التزام کیا جائے ‘تمام امور دین میں اس کی رخصتوں پر عمل کیا جائے ‘ اور عزائم کو قبول کیا جائے۔
علماء کرام رحمہم اللہ نے اس قسم میں اختلاف کیا ہے۔ ان میں سے بعض نے اس کا واجب ہونا حکایت میں نقل کیا ہے ، اس لیے کہ متأخرین میں اجتہاد کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اور ان میں سے بعض نے اس کی حرمت بیان کی ہے۔ کیونکہ اس میں غیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مطلق اتباع کا