کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 120
۵: لغت اور اصول فقہ کے وہ امور جانتا ہو جو الفاظ کی دلالات سے تعلق رکھتے ہوں ، جیسے عام اور خاص، اور مطلق اورمقید ، اور مجمل اور مبین ، اور اس طرح کے الفاظ۔ تاکہ ان دلالات کے مقتضی کے مطابق حکم لگائے۔ ۶: اس کے پاس اتنی قدرت ہو کہ وہ ادلہ سے احکام کے استنباط کی قدرت رکھتا ہو۔ اجتہاد کی تقسیم ممکن ہے۔ کبھی علم کے کسی ایک باب میں اجتہاد ہوسکتا ہے اور کبھی اس کے مسائل میں سے کسی ایک مسئلہ میں [بھی اجتہاد کا ہونا ممکن ہے]۔ مجتہد پر کیا لازم ہے ؟: مجتہد پر لازم ہے کہ وہ حق بات کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششیں صرف کرے۔پھر جو چیز اس کے لیے ظاہر ہو اس کے مطابق حکم لگائے ، اگر اس نے حق کو پالیا تو اس کے لیے دو اجر ہیں ۔ ایک اجر اس کے اجتہاد کرنے کا ہے‘ اور دوسرا اجر حق کو پالینے کا۔ کیونکہ اس کے حق کا ادراک کرنے میں حق کا اظہار اور اس پر عمل کرنا ممکن ہے۔ اگر وہ غلطی کر جائے تب بھی اس کے لیے ایک اجرہے۔ اور یہ خطا بخشی ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((إذا حکم الحاکم فاجتہد ، ثم أصاب فلہ أجران ، إذا حکم الحاکم فاجتہد ، ثم أخطأ فلہ أجر۔))[1] ’’جب کاحاکم کوئی فیصلہ کرے ‘ اور اپنی کوششیں صرف کرے‘ پھر وہ حق کو پالے تو اس کے لیے دو اجر ہیں ‘اور جب فیصلہ کرے‘ اور اجتہاد کرے‘اورغلطی ہوجائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے ۔‘‘ اگر اس کے لیے حکم ظاہر نہ ہو تو توقف واجب ہوجاتا ہے ، اس وقت تقلید کرنا ضرورت کے تحت جائز ہے۔[2]
[1] رواہ بخاری(۷۳۵۲) کتاب الاعتصام‘۲۱ باب أجر الحاکم إذا اجتہد فأصاب أو أخطأ۔ مسلم (۱۷۱۶) کتاب الأقضیۃ‘ ۶-باب بیان أجر الحاکم إذا اجتہد فأصاب أو أخطأ۔ [2] صحیح یہی ہے کہ عالم کے لیے تقلید ضرورت کے تحت ہی جائز ہے ‘ عام حالات میں نہیں ۔