کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 117
ایک بھائی ہے ‘ ایک سگا چچا ہے ‘(تووراثت کیسے تقسیم ہوگی؟)۔ تو مفتی کو چاہیے کہ وہ پوچھ لے کہ کیاوہ بھائی ماں کی طرف سے ہے یا نہیں ؟۔یا اس کی تفصیل جواب میں بیان کردے۔ اگروہ بھائی ماں کی طرف سے ہو ( باپ علیحدہ ہوں ) تو اس صورت میں اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔ بیٹی کا حصہ نکالنے کے بعد باقی چچا کا ہوگا۔ اور اگر بھائی ماں زاد کے علاوہ ( سگا ہے ‘یا باپ کی طرف سے )ہے تو اس صورت میں بیٹی کے حصہ کے بعد باقی مال اس کا ہوگا ‘ چچا کو کچھ نہیں ملے گا۔ ۳: یہ کہ نرم مزاج اور مطمئن ہو۔ تاکہ اس کے لیے مسئلہ کو اچھی طرح سمجھنا اور اس کی ادلہ شرعیہ پر تطبیق کرنا ممکن ہو۔ سو وہ ذہنی انتشار کے وقت فتوی نہ دے ، خواہ وہ غصہ کی وجہ سے ہو یا پریشانی و غم کی وجہ سے ، یا حزن و ملال یا کسی اور وجہ سے۔ اور فتوی کے واجب ہونے کے لیے کئی شرطیں ہیں ‘ان میں سے : ۱: ایسے حادثہ (معاملہ ) کا پیش آنا جس کے بارے میں سوال کیا جارہا ہے۔ اگر معاملہ پیش نہ آیا ہو تو اس کے بارے میں فتوی واجب نہیں ‘ کیونکہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر سائل اس کے بارے میں علم حاصل کرنا چاہتا ہو، توبیشک علم چھپانا جائز نہیں ہے۔ بلکہ جب بھی اس سے اس بارے میں پوچھا جائے تو وہ ہر حال میں اس کا جواب دے گا۔ ۲: یہ جاننے کی کوشش نہ کرے کہ سائل کا پوچھنے سے مقصد سرکشی ہے یا رخصت تلاش کرنا، یا علماء کرام کی آراء کا آپس میں موازنہ کرنا، یا ان کے علاوہ کوئی اور برا مقصد ہو۔ اگر اس نے سائل کے حال سے یہ بات جان لی تو اب فتوی واجب نہیں ہے ۔[1] ۳: فتوی پر ایسا معاملہ مرتب نہ ہو جس کا ضرر زیادہ ہو، اگر اس پر ضرر زیادہ مرتب ہوتا ہو تو واجب ہے کہ فتوی سے رک جائے۔ تاکہ دو مفسد چیزوں میں سے کم فساد والی کیساتھ زیادہ فساد کو ختم کرے۔
[1] بعض علماء کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں : صرف رخصت تلاش کرتے رہنا زندیقیت ہے۔