کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 112
۴: اگر اس کے لیے کوئی مرجح نہ ہو توتوقف کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اور اس کی کوئی صحیح مثال نہیں پائی جاتی۔
تیسری قسم: یہ کہ تعارض عام اور خاص میں ہو(یعنی ان میں سے ایک عام پر دلالت کرتی ہو)۔ تو عام کو خاص سے مخصص کردیاجائے گا۔
اس کی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
((فیما سقت السماء العشر ۔))[1]
’’ جس کو بارش سے پانی ملے اس میں دسواں حصہ ہے ۔‘‘
اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے خاص کیا گیا ہے :
((لیس فیما دون خمسۃ أوسق صدقۃ۔))[2]
’’ جو (غلہ/ فصل )پانچ اوسق سے کم ہو ‘ اس میں صدقہ (زکوٰۃ) نہیں ہے ۔‘‘
تو ان میں پہلی روایت کو دوسری کیساتھ خاص کیا گیا ہے ‘ اس لیے پانچ وسق سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہوگی۔ [3]
چوتھی قسم…: دو ایسی نصوص کے درمیان تعارض ہو‘ کہ ان میں سے ایک دوسری سے ایک وجہ سے اعم ہو اور ایک وجہ سے اخص۔ اس کی تین حالتیں ہیں :
[1] رواہ البخاری(۱۴۸۳) کتاب الزکاۃ‘ باب العشر فیما یسقی من ماء السماء وبالماء الجاري۔
[2] رواہ البخاری(۱۴۸۴) کتاب الزکاۃ‘ ۵۶-باب لیس فیما دون خمسۃ أوسق صدقۃ۔ ومسلم (۹۷۹) کتاب الزکاۃ ‘۳-بلا باب ۔
[3] یہاں پر سمجھ لینا چاہیے کہ تخصیص دو وجہ سے ہے ؛ (۱)… کمیت کی وجہ سے : توپانچ وسق سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہوگی۔ (۲)… نوع کی وجہ سے : ایسی چیزوں میں زکوات نہیں ہوگی جنہیں وسق سے ماپا نہ جاسکتا ہو‘ جیسے کہ پھل ۔ فائدہ : جب خاص کا حکم عام کے موافق ہو تو اسے تخصیص نہیں کہتے ۔ یہی جمہور کا قول ہے ‘ اس میں ابو ثور نے اختلاف کیا ہے ۔