کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 111
پھوپھیوں کی بیٹیاں …۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَائَ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ إِلَّا مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ …﴾ (الاحزاب:۵۲) ’’ ان کے سوا اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں اور نہ یہ کہ ان بیویوں کو چھوڑ کر اور بیویاں کروخواہ اُن کا حسن آپ کو اچھا لگے مگر وہ جوآپ ہاتھ کا مال ہے۔‘‘ ایک قول کے مطابق ان میں سے دوسری آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ ہے ۔ ۳: اگر تاریخ کا علم نہ ہوسکے تو ان میں سے راجح پر عمل کیا جائے گا‘ اگر وہا ں پر کوئی مرجح موجود ہو۔ اس کی مثال : حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے : ’’بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلال تھے۔‘‘[1] اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے : ’’بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں تھے۔‘‘[2] ان میں سے راجح پہلی حدیث ہے۔ کیونکہ یہ واقعہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا ہے ‘ اوروہ اپنے متعلق زیادہ اور بہتر جانتی ہیں ۔ اور اس کی تائید حدیث ِ ابو رافع رضی اللہ عنہ سے بھی ہوتی ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلال تھے۔ اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتا تھا۔ ‘‘[3]
[1] رواہ مسلم (۱۴۱۱) من حدیث میمونۃ رضی اللہ عنہا ‘ کتاب النکاح ‘۵-باب تحریم نکاح المحرم وکراہیۃ خطبتہ و(۱۴۱۰) من حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما ۔ وقال ابن عبد البر:’’ (۳/۱۵۲) ’’من التمہید‘‘ الروایۃ عن میمونۃ رضی اللہ عنہا متواترۃ ۔ [2] رواہ البخاري (۵۱۱۴) کتاب النکاح ‘۳۰-باب نکاح المحرم ۔و مسلم (۱۴۱۰) کتاب النکاح‘۵- باب تحریم نکاح المحرم ۔ فائدہ: یہ وہم اس لیے ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اس وقت اس کا علم ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے بعد احرام باندھ لیا تھا ‘ تو آپ نے سمجھا کہ یہ نکاح حالت ِ احرام میں ہوا ہے ۔ [3] رواہ ابن حبان (۱۲۷۲-الموارد ) کتاب النکاح /۱۴- باب ما جاء في نکاح المحرم ۔وأحم (۶/۳۹۲/۲۷۲۴۱) ۔ والترمذي (۸۴۱) کتاب الحج‘ ۲۳- باب ما جاء في کراہیۃ تزویج المحرم و قال حسن ’وضعفہ الألباني۔