کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 110
مثال نہیں پائی جاتی۔ دوسری قسم: یہ کہ تعارض دو خاص دلیلوں میں تعارض ہو(یعنی ان میں سے ہر ایک غیر عام پر دلالت کرتی ہو)۔ اس کی بھی چار حالتیں ہیں : ۱: یہ کہ ان دونوں کے درمیان جمع ممکن ہو‘ اتواس صورت میں ان کے درمیان جمع (و تطبیق) واجب ہوجاتے ہیں ۔اس کی مثال حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کی صفات کے بارے میں روایت کردہ حدیث ہے ، کہ:’’ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن ظہر کی نماز مکہ میں پڑھی۔‘‘[1] جب کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز منی میں ادا کی۔‘‘[2] ان کے درمیان جمع ایسے ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز مکہ میں پڑھی ، مگر جب منی پہنچے تو اپنے صحابہ (کی امامت کے لیے ان) کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھی۔ ۲: اگر ان کے درمیان جمع ممکن نہ ہو ، تواگر تاریخ کا علم ہوجائے ؛ تو ان میں سے دوسری ناسخ ہوگی ۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿ یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْتَ أُجُورَہُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّا أَفَائَ اللّٰهُ عَلَیْکَ وَبَنَاتِ عَمِّکَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِکَ﴾ (الاحزاب:۵۰) ’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے آپ کے لئے آپ کی بیویاں جن کو آپ نے اُن کے مہر دیدیئے ہیں حلال کر دی ہیں اور آپ کی لونڈیاں جو اللہ نے آپ کو (کفار سے بطور مالِ غنیمت) دلوائی ہیں اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری
[1] رواہ مسلم(۱۲۱۸) في حدیث جابر الطویل‘ کتاب الحج ‘۱۹؛ باب حجۃ النبی صلي الله عليه وسلم ۔ [2] رواہ البخاری ( ۱۶۵۳) کتاب الحج ‘۸۳؛ باب أین یصلی الظہر یوم الترویۃ۔ ومسلم (۱۳۰۹) کتاب الحج ‘ ۵۸؛ باب استحباب طواف الافاضۃ یوم النحر من حدیث انس ۔ ورواہ مسلم (۱۳۰۸) من حدیث أنس رضی اللہ عنہ ۔