کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 109
ان کا شمار پورا کر لے۔‘‘
یہ آیت غیرِ مریض اور مسافر کے حق میں روزوں کے متعین ہونے کا فائدہ دیتی ہے۔ اور ان دو قسم کے لوگوں کے حق میں قضاء کا فائدہ دیتی ہے؛ لیکن یہ پہلی آیت سے متأخر ہے ‘ تو یہ اس کے لیے ناسخ ہوگی، جیساکہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے ، جو کہ صحیحین میں ثابت ہے ۔ [1]
۳: اگر تاریخ کا علم نہ ہوسکے تو ان میں سے راجح پر عمل کیا جائے گا‘ اگر وہا ں پر کوئی مرجح موجود ہو۔ اس کی مثال : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
((من مس ذکرہ فلیتوضأ۔))[2]
’’ جس نے اپنے ذکر کو چھویا اسے چاہیے کہ وہ وضو کرے ۔‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیاجس نے اپنے ذکر کو چھوا ، کیا اس پر وضو کرنا لازم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لاإنما ہو بضعۃ منک ۔))[3]
’’ نہیں ، وہ توتمہارے جسم کا ایک ٹکڑا ہے ۔‘‘
اس میں پہلے کو راجح کہا جائے گا کیونکہ: اس میں احتیاط ہے، اس لیے بھی کہ اسے کثرت طرق سے روایت کیاگیا ہے ، اسے اکثر لوگوں نے صحیح کہا ہے ، کیونکہ یہ اصل سے نقل کرنے والاہے ، اس میں علم کی زیادتی ہے۔
۴: اگر اس کے لیے کوئی مرجح نہ ہو توتوقف کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اور اس کی کوئی صحیح
[1] بخاری (۴۵۰۷) کتاب التفسیر ۲۶‘ باب فمن شہد منکم … مسلم (۱۱۴۵) کتاب الصیام باب بیان نسخ …،
[2] ابو داؤد (۱۸۱)ترمذی(۸۲)ابن ماجہ (۴۸۱) و النسائی في ’’الصغری‘‘ (۴۴۴) وأحمد (۶/۴۰۶/۲۷۳۳۴) وصححہ ابن حبان (۲۱۳-الموارد) کتاب الطہارۃ ۲۹-باب ما جاء في مس الفرج۔
[3] ابو داؤد (۱۸۲)ترمذی(۸۵)ابن ماجہ (۴۸۳) و النسائی في ’’الصغری‘‘ (۱۶۵)۔