کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 106
کا الٹ ثابت کرنا ‘ کیونکہ اس میں اصل کے حکم کی علت کا الٹ پایا جاتا ہے ۔ اس کے لیے انہوں نے مثال یہ بیان کی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((و في بضع أحدکم صدقۃ۔قالوا: یارسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ! أیأتي أحدنا شہوتہ ویکون لہ فیہا أجر؟ قال : ’’ أرأیتم لو وضعہا في حرام أ کان علیہ وزر؟ فکذلک إذا وضعہا في الحلال کان لہ أجر۔))[1] ’’ تم میں سے کسی ایک کی شرمگاہ میں بھی صدقہ ہے‘‘۔صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !‘‘کیا ہم میں سے کوئی ایک جب اپنی شہوت پوری کرتا ہے ‘تواس میں بھی اس کے لیے اجر ہے ؟۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ’’ کیا اگروہ یہی نطفہ حرام جگہ پر رکھتا تو اس پر گناہ ہوتا ، ایسے جب وہ اسے حلال جگہ پر رکھتا ہے تو اس کے لیے اجر ہے ۔‘‘[2] سو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرع کے لیے یعنی حلال جماع کے واسطے اصل کے حکم کا الٹ ثابت کیا اور وہ ہے حرام جماع (زنا)۔ کیونکہ اس میں حکم ِاصل کی علت کا الٹ پایا جاتا ہے۔ اور فرع کے لیے اجر ثابت کیا، کیونکہ وہ حلال وطی ہے، جیسے اس کے اصل میں گناہ ہے ‘ کیوں کہ وطی حرام ہے ۔( مگر جب اس پر حلال طریقہ سے قدرت ہو تو حلال اور باعث ِ اجر ہے )۔ [3]
[1] بخاری (۷۱۵۸)۔ کتاب الاحکام ۱۳؛ باب ہل یقضی القاضی أو یفتی وھو غضبان ۔ومسلم (۱۷۱۷) کتاب الأقضیۃ ‘۷- باب کراہۃ قضاء القاضي و ہو غضبان۔ [2] رواہ مسلم (۱۰۰۶) کتاب الزکاۃ ؛ باب بیان أن اسم صدقۃ یقع علی کل نوع من المعروف۔ [3] اس باب کے آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ طلباء اور عام اہل علم کے فائدہ کے لیے چند قواعد جواس موضوع سے تعلق رکھتے ہیں بیان کردیے جائیں ۔ ان قواعد میں سے : قاعدہ: صحابی کا ایسا قول جس کے مخالف کسی دوسرے صحابی کا قول موجود نہ ہو ‘ وہ قیاس پر مقدم ہے ۔ قاعدہ: حکم اپنی علت کے ساتھ گھومتا ہے عدم اور وجود کے لحاظ سے۔ جہاں علت ہوگی وہاں پر حکم ثابت ہوگا ‘ اور جہاں پر علت نہیں ہوگی ؛ وہاں حکم نہیں ہوگا ۔ اور علت دلیل کے بغیر ثابت نہیں ہوتی۔ قاعدہ: عبادات اور عقائد میں کوئی قیاس نہیں ہوتا۔