کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 102
’’ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوتا ۔‘‘
۲: یہ کہ اصل ( جس پر قیاس کیا جارہا ہے )کا حکم نص یا اجماع سے ثابت ہو۔ اگر یہ (اصل یعنی مقیس علیہ کا ) حکم قیاس سے ثابت ہوگا تو اس پر قیاس کرنا درست نہیں ہوگا۔ سو بیشک اسے پہلے اصل پر قیاس کیا جائے گا۔ اور اس (پہلے اصل ) کی طرف رجوع کرنا ہی اولی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ جس فرع کو اصل بنا کر اس پر قیاس کیا جارہا ہے ‘ کبھی یہ غیر صحیح ہو سکتا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ فرع پر قیاس کرنا پھر فرع کو اصل پر قیاس کرنا بلا وجہ کی ایک تکلیف ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ ہے :
’’ یہ کہا جائے کہ :’’ مکئی میں بھی سود جاری ہوگا ‘ اور اس کو چاول پر قیاس کیا جائے گا۔ اور چاول میں سود کو گندم پر قیاس کیا جائے گا۔ اس طرح کے قیاس کرنا غیر صحیح ہیں ۔لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ : ’’ مکئی میں سود کا حکم اسے گندم پر قیاس کرتے ہوئے جاری کیا جائے گا‘‘۔ اس لیے کہ اسے نص سے ثابت اصل پر قیاس کیا جائے گا۔
۳: اصل کے حکم کے لیے علت معلوم ہو۔ تاکہ اس حکم میں اصل اور فرع کو جمع کرنا ممکن ہو، اگر اصل کا حکم محض تعبدی تھا ‘ تو اس پر قیاس کرنا درست نہیں ہے ۔ [1]
اس کی مثال:یہ کہا جائے کہ : ’’ شتر مرغ کا گوشت بھی وضوء توڑتا ہے ‘ اسے ان دونوں کے درمیان مشابہت کی وجہ سے اونٹ کے گوشت پر قیاس کیا جائے۔ تو کہا جائے گا یہ قیاس غیر صحیح ہے ، کیونکہ اس کے اصل ( اونٹ کے گوشت ) کی علت معلوم نہیں ہے( کہ کس وجہ سے اور کیسے اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹتا ہے )۔ بیشک یہ حکم مشہور قول کے مطابق محض تعبدی ہے ۔
۴: (اصل کے حکم کی) علت حکم کے ایسے معانی پر مشتمل ہو جس سے قواعد شرع کا معتبر ہونا معلوم ہو۔ جیسے :’’ شراب کی علت اس کا نشہ آور ہونا ہے ۔‘‘
اگر اس کے معانی ایسے پیش آنے والے اوصاف ہوں جن کی کوئی مناسبت نہ ہو‘ تو اس
[1] (قاعدہ ) : عبادات ‘ ان کی شروط اور ارکان پر کوئی چیز قیاس نہیں کی جائے گی ‘‘۔