کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 101
طرف سے امور کا قیاس کیجیے۔ اور ان کی مماثلات کو پہچانیے ، پھر اس پر اعتماد کیجیے جس کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ سمجھتے ہو( یعنی جو شرع سے زیادہ موافق اور صواب کے قریب تر ہو)اور وہ حق سے زیادہ مشابہت رکھتا ہو۔‘‘[1]
ابن قیم رحمہما اللہ فرماتے ہیں :
’’یہ بہت ہی جلیل القدر خط تھا جو علماء کرام رحمۃ اللہ علیہم کے ہاں بہت ہی مقبول ہوا ۔‘‘
علامہ مزنی رحمہما اللہ حکایت نقل کرتے ہیں :’’ بیشک فقہاء کرام عصر ِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے لے کر آج تک اس بات پر متفق ہیں کہ: ’’حق کی نظیر ( مثال ) بھی حق ہے ‘ اور باطل کی نظیر بھی باطل ہے۔ اور انہوں نے مقاییس کو فقہ کے تمام احکام میں استعمال کیا ہے۔
قیاس کی شرطیں :
قیاس کی شرطیں ہیں ، ان میں سے :
۱: یہ کہ قیاس اپنے سے قوی دلیل ( کتاب و سنت ، اجماع اور قول صحابی ) کے مخالف نہ ہو۔ ایسے قیاس کا کوئی اعتبار نہیں جو نص ‘ اجماع ‘ یا اقوال صحابہ سے متصادم ہو۔ کیونکہ ہمارا مذہب ہے کہ صحابی کا قول حجت ہے ۔اور ایسے متصادم قیاس کو جس کا ذکر کیا گیا ؛ فاسد الاعتبار کہتے ہیں ۔
اس کی مثال : ’’ یہ کہا جائے: یہ درست ہے کہ عاقل بالغ عورت اپنا نکاح خود کرے ‘ بغیر ولی کے ، جیسے اس کی خرید و فروخت ولی کے بغیر اس کی خرید و فروخت درست ہوتی ہے۔ یہ قیاس نص سے متصادم ہونے کی بنا پرفاسد الاعتبار ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
((لا نکاح إلا بولي۔))[2]
[1] رواہ البہیقی (۱۰/۱۵۵) کتاب آداب القاضی؛ باب ما یقضي بہ القاضي ۔والدار قطني (۴/۲۰۶-۲۰۷) کتاب في الأقضیۃ و الأحکام ؛ کتاب عمر إلی أبي موسی الأ شعری۔
[2] الترمذي(۱۱۰۱) کتاب النکاح‘۱۴؛ باب ما جاء لا نکاح إلا بولي؛ و أبو داؤد (۲۰۸۵) کتاب النکاح ‘ باب في الولي۔ وابن ماجۃ(۱۸۸۰) کتاب النکاح‘۱۵- باب لا نکاح إلا بولي ۔ و أحمد (۱/۲۵۰)۔ والحاکم (۲/۱۸۵) کتاب النکاح۔ وصححہ ابن حبان ( ۱۲۴۳- الموارد) باب ما جاء في الولي والشھود۔