کتاب: اصول فقہ(عثیمین) - صفحہ 100
۲: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی : ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ’’ میرے ہاں ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں ؟۔ اس نے کہا : ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا : ’’ ان کا رنگ کیا ہے ؟۔ کہنے لگا :’’ سرخ ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ کیا ان میں سفید سیاہی مائل( مٹیالے رنگ کا ) بھی ہے ؟ اس نے کہا : ’’ شاید یہ رگ کے کھنچ جانے سے ہو۔‘‘ [2] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ شاید یہی رگ کا کھنچ جانے سے تمہارا یہ بیٹا ہو ۔‘‘[3] ایسے ہی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں وارد ہونے والی تمام مثالیں قیاس پر دلیل ہیں ۔ کیونکہ ان میں ایک چیز پر دوسری کا اعتبار ( برابر/موازنہ ) کیا گیا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال میں سے : امیر المؤمنین جناب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے ‘ انہوں نے اپنے خط میں حضرت موسی اشعری رضی اللہ عنہ کوقضاء (فیصلہ )کے بارے میں لکھا تھا: [4] ’’ پھر سمجھ اور اچھی سمجھ ، اس معاملہ کی جو تمہارے پاس پیش کیاگیا ہو‘یا وہ معاملہ جو تمہارے ہاں وارد ہوا ہو‘ اور اس پر کتاب و سنت کی کوئی دلیل نہ ہو، پھر اپنی
[1] رواہ البخاری (۱۹۵۳)کتاب الصوم‘۴۲-باب من مات و علیہ الصوم۔ ومسلم (۱۱۴۸) کتاب الصیام‘۴۲-باب قضاء الصوم عن المیت۔ یعنی نہ میں کالا ہوں ‘ اور نہ ہی میری بیوی کالی ہے ‘ تو بچہ کالا کہاں سے آگیا ؟‘ گویا کہ اسے شک گزرا ۔ [2] رگ کھنچ جانے سے مراد یہ ہے کہ اس غالب رنگ کالے والی رگ پیٹھ کی طرف کھنچ جانے سے وہ خون غالب آگیا ہو ‘ اور جنین نے یہ رنگ اختیار کر لیا ہو۔ یہ بھی قیاس ہے کہ جنین کے رنگ کو رگ (کے خون) کے ساتھ قیاس کیا گیا ہے۔ [3] رواہ البخاری(۵۳۰۵) کتاب الطلاق؛ ۲۶- باب إذاعرض بنفي الولد۔ ومسلم (۱۵۰۰) کتاب اللعان ‘ بلا باب ۔ [4] اس خط کو ہر دور میں اہل قیاس کے ہاں اہمیت حاصل رہی ہے ۔ کیونکہ یہ اس باب میں اہم ترین چیز ہے ؛ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خلفاء الراشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کی پیروی کا حکم دیا ہے ۔ اور قیاس ان کے ہاں ثابت ہے ۔ دیکھو : اغاثۃ اللفہان (۱/۸۶)۔