کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 95
لہذا عقل مصلحت کو تعین کرنے میں ناکام ہے، یہ کام صرف شرع کر سکتی ہے یعنی شارع یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ حقیقی مصلحت کس فعل میں ہے اور کونسا فعل نقصان دہ ہے۔ چنانچہ مسلمان کا نظریہ ہے کہ جہاں شریعت ہے وہاں مصلحت ہے یعنی جس چیز کو شرع نے حلال و جائز قرار دیا ہے، وہ اس کے لئے بھلی ہے اور جس چیز کو شرع نے حرام قرار دیا ہے وہ اس کے لئے بری۔ عقل کو کسی فعل پر اچھے یا برے کا فیصلہ دینے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ورنہ انسان کے لئے وحی نازل کرنے کا مقصد ہی ساقط ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر انسان کی عقل اچھے و برے کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوتی تو اللہ تعالیٰ کا وحی کے ذریعے ہدایت بھیجنا بے مقصد نظر آتا ہے۔ چنانچہ مصلحہ مرسلہ یعنی بلا دلیل مصلحت کی شرع میں کوئی اہمیت نہیں ہے اور اسی لئے یہ مسترد ہے۔ اگرچہ یہ تمام دلائل، جنہیں رد کیا گیا ہے، حقیقت میں دلائل کی حیثیت نہیں رکھتے، تاہم وہ احکام جو ان دلائل سے بعض علماء نے اخذ کیے ہیں، یہ احکام شرعیہ ہی ہیں کیونکہ ان دلائل پر دلیل کی شبہات پڑتی ہے جسے اصطلاح میں شبہۃ دلیل کہا جاتا ہے۔ اس لئے وہ لوگ جو ان مجتہدین کی تقلید کرتے ہیں، ان مقلدین کے لئے یہ شرع کے احکام ہی ہیں۔