کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 94
یہ تمام آیات قطعی طور پر اس امر پر دلالت کر رہی ہیں کہ ایسا کوئی مسئلہ موجود ہی نہیں جس کا جواب شرع نے نہ دیا ہو۔ شریعتِ اسلامی زندگی کے تمام مسائل کو حل کرتی ہے خواہ وہ کتنا ہی باریک کیوں نہ ہو۔ کتبِ فقہ پر ایک سرسری نظر اس بات کی تصدیق کرتی ہے، جہاں باریک سے باریک مسائل اسلام کے نصوص سے سمجھے گئے ہیں اور قیامت تک اخذ کئے جائیں گے۔ جہاں تک انتظامی، صنعتی و سائنسی امور کا تعلق ہے، تو ایسی بات نہیں ہے کہ شرع ان پر خاموش ہے بلکہ اس نے ان امور کو انسان پر چھوڑ دیا ہے بشرطیکہ یہ خلافِ شرع نہ ہوں۔ شرع کا ان امور کو انسان پر چھوڑ دینے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ ان مسائل پر خاموش ہے، کیونکہ اس امر کے دلائل شرع میں موجود ہیں، مثلاً : ’’ أنتم أدری بشؤون دنیاکم ‘‘(مسلم) (تم اپنے دنیوی امور سے زیادہ واقف ہو) اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں دیوانی نظام اہلِ فارس سے لیا، اس کے باوجود کہ کفار اس کے بانی تھے۔ یہ انتظامی امور میں سے تھا اور آج بھی ایسے تمام امور مثلاً ٹریفک کے قوانین، اسی طرح صنعت و سائنس اور انجینرنگ وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے کہ ان تمام علوم کو دوسری قوموں سے لیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ عالمی ہیں، بشرطیکہ یہ اسلام کے خلاف نہ ہوں۔ لہذا شرع کسی بات پر خاموش نہیں ہے !! علاوہ ازیں عقل اس قابل نہیں کہ وہ مصلحت کو تعین کر سکے کیونکہ کئی مرتبہ عقل کسی بات پر مصلحت ہونے کا فیصلہ صادر کرتی ہے مگر بعد میں وہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور اسی طرح بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ عقل کسی بات کو ضر ررساں سمجھتی ہے مگر وہ مفید ثابت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کیا خوب فرماتا ہے : ﴿ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴾2:216 (ممکن ہے تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو،حقیقی علم اللہ ہی کو ہے اور تم محض بے خبر ہو)