کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 93
پہلی قسم وہ ہے جو نصوص سے ثابت ہے، مثلاً علم حاصل کرنا۔ دوسری جو نصوص کے خلاف ہے، مثلاً جہاد کی نفی، چنانچہ یہ مسترد ہے۔ مرسلہ وہ ہے جس کی نفی یا اثبات پر کوئی دلیل و نص موجود نہ ہو یعنی وہ تمام افعال جن پر شرع خاموش ہے، اگر یہ مقاصدِ شریعت کو فائدہ پہنچائے تو یہ مقبول ہے، مثلاً ٹریفک کا قانون بنانا وغیرہ۔ پہلی قسم حقیقت میں شرعی نصوص ہیں اس لئے وہ بذاتِ خود دلائل ہیں نہ مصلحت، یعنی چونکہ یہ احکام ان کے شرعی دلائل سے ثابت ہیں، مثلاً علم حاصل کرنا : ’’ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم‘‘(ابن ماجہ) (علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے) اس لئے انہیں مصلحت سے موسوم نہیں کیا جائے گا۔ دوسری قسم کا استرداد ظاہر ہے جبکہ تیسری قسم یعنی مصلحہ مرسلہ)بلا دلیل مصلحت) پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ یہ دعویٰ کرنا کہ شرع کئی امور پر خاموش ہے صریح نصوص کے خلاف ہے : ﴿ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ﴾16:89 (اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی جو ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرتی ہے) ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي﴾5:3 (آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت مکمل کر دی) ﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ﴾42:10 (اور جس جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے) ﴿ أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَن يُتْرَكَ سُدًى ﴾75:36 (کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے بیکار چھوڑ دیا جائے گا)