کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 92
(جس کے ذمہ کچھ سپرد کیا گیا تو وہ اس کا ضامن نہیں ) مذکورہ مثالوں سے یہ ظاہر ہے کہ استحسان عقلی تاویلوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور جس کے شرع میں قطعی دلائل تو کیا ظنی دلائل بھی نہیں ملتے !! یاد رہے کہ لفظِ استحسان ’’حسن‘‘(اچھا) سے مشتق ہے جو شرعی نصوص میں اپنے لغوی معنی میں مذکور ہے نہ اصطلاحی۔ استحسان میں عقل کو شرع پر ترجیح دی گئی ہے، اس لئے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ اس میں عقل مصلحت کا تعین کرتی ہے نہ کہ شرع۔ اسی طرح استحسان کی( اصطلاحی) تعریفیں بھی باطل ہیں کیونکہ یہ کہنا کہ مجتہد کے ذہن میں کوئی دلیل داخل ہو مگر وہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا، یہ ایک ایسا شرعی ماخذ کیسا ہو سکتا ہے جس کی بنیاد پر مسلمان اپنی زندگی بسر کرے ! یہ تو کوئی خیال ہی ہو سکتا ہے کوئی دلیل ہرگز نہیں !! اس کے علاوہ قیاسِ جلی کو چھوڑ کر ایسے قیاسِ خفی کو اختیار کرنا جو ایک زیادہ قوی دلیل پر مبنی ہو، اس کا کیا مطلب ہے ؟ اگر تو اس سے مراد قیاس کو چھوڑ کر قرآن و سنت کی کسی نص کا اعتبار کرنا ہے، توا سے استحسان نہیں کہا جائے گا بلکہ یہ تو قرآن و سنت کے دلائل ہوں گے !! اور اگر اس سے یہ مراد ہے کہ کسی شرعی علت والے قیاس کو ترک کر کے کسی عقلی علت پر مبنی قیاس کی طرف رجوع کیا جائے، تو یہ مسترد ہے !! کیونکہ جیسے پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ شرع میں فقط وہی قیاس معتبر ہے جس کی کوئی شرعی علت موجود ہو، ورنہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ چنانچہ ا ستحسان کی تردید، اس کے بلا دلیل ہونے کی وجہ سے ثابت ہے۔ مصلحہ مرسلہ اس کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے : وہ جو بغیر دلیل کے ہو مگر مقاصدِ شریعت کو فائدہ پہنچائے یا حرج کو دفع کرے، یعنی جلبِ مصلحت اور دفعِ مضرت۔ بعض نے مصلحت کو ان تین زمروں میں تقسیم کیا ہے : 1) معتبرہ 2) ملغاء 3)مرسلہ۔