کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 91
دوسری مثال: ایک شخص نے دو بندوں سے ایک گاڑی خریدی جس کے وہ دونوں مالک تھے۔ ان کا معاہدہ اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ اس قیمت کی ادائیگی بعد میں کرے گا۔ کچھ عرصے بعد خریدار ان میں سے ایک کوہی پوری قیمت ادا کر دیتا ہے، مگر ان پیسوں کا قبضے میں آنے کے بعد اور دوسرے کو اس کاحصہ ملنے سے قبل، نقصان ہو جاتا ہے۔ استحسان کی رو سے اس نقصان کی تلافی صرف وہ شخص کرے گا جس نے قیمت وصول کی کیونکہ اگر وہ چاہتا تو خریدار سے کہہ سکتا تھا کہ وہ خود دوسرے کو اس کا حصہ دیدے، مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔
تیسری مثال : کوئی شخص ایک دکاندار درزی کو کپڑا دیتا ہے تاکہ وہ اس کے لئے ایک قمیص سیئے۔ بعد میں اس کپڑے کو، بغیر درزی کی کوتاہی کے، کوئی نقصان پہنچتا ہے۔ استحسان کی رو سے اس کی تلافی درزی کو کرنا ہو گی کیونکہ اسے چاہیے کہ وہ گاہکوں سے اتنا ہی کپڑا لے، جتنا وہ محفوظ رکھ سکے ورنہ وہ خواہ مخواہ لوگوں کی ملکیت کو برباد کرنے کا باعث بنے گا۔
اس صریح آیت کے باوجود بعض نے بلند مرتبے کی عورتوں کے لئے سرے سے دودھ نہ پلانے کی چھوٹ دی ہے، اور یہ استحسان کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ یہ تخصیص بلا دلیل ہے چنانچہ حکم کے عموم پر عمل لازم ہے، یعنی دو سال دودھ پلانے کا حکم سب ما ؤوں کے لئے ہے قطع نظر رتبے کے کیونکہ :
﴿ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ﴾( دو سال کامل)۔
دوسری مثال میں گاڑی دونوں کی ملکیت ہے جسے وہ بیچنا چاہتے ہیں، چنانچہ یہ ایک شراکت( company) ہے۔ اس لئے جو رقم ان میں سے ایک نے خریدار سے وصول کی، وہ اس نے انفرادی حیثیت سے حاصل نہیں کی بلکہ ایک شراکت میں شریک کی حیثیت سے۔ یعنی یہ وصولی کمپنی نے کی ہے نہ ایک فردِ واحد نے اور اسی لئے، شرع کے مطابق، نقصان بھی کمپنی ہی کو اٹھانا پڑے گا۔ دوسرے لفظوں میں جس نے وصولی نہیں کی اسے برابر کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تیسری مثال میں درزی پر کپڑوں کی ذمہ داری ڈال دینا، اس حدیث کے خلاف ہے جس میں صراحتاً اس بات کی نہی ہے :
’’ لا ضمان علی مؤتمن ‘‘(الدارقطنی)