کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 90
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴾9:34 (اے ایمان والو! اکثر علماءِ یہود و نصاریٰ لوگوں کا مال کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے ) اس کے باوجود کہ یہ آیت علمائے یہود و نصاریٰ کے اعمال کا تذکرہ کر رہی ہے، اس میں جو حکم مذکور ہے، یعنی مال کا خزانہ کرنے کی تحریم، وہ شریعتِ اسلامی میں سے ہے کیونکہ تعالیٰ نے آغاز ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ﴾سے کیا ہے۔ دوسری مثال : ﴿ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ ﴾5:44 (جس کسی نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کیا تو یہی لوگ کافر ہیں) اگرچہ اس آیت کا سیاق یہودیوں کے بارے میں ہے، مگر اس میں مذکور حکم شریعتِ اسلامی میں سے ہے کیونکہ آیت میں حرفِ عام ﴿مَن﴾(جو کوئی)موجود ہے جو مسلمانوں کو بھی شامل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین کے علاوہ کسی اور چیز کے مطابق حکومت یا فیصلہ کرنا حرام ہے۔ لہذا شرائع ما قبل ہمارے لئے شرعی دلیل و ماخذ نہیں ہے۔ استحسان استحسان کی تعریفیں یہ بتائی گئی ہیں : ایک ایسی دلیل جو یکدم مجتہد کے ذہن میں داخل ہو مگر وہ اسے بیان کرنے سے قاصر ہو۔ اجتہاد میں ایک زیادہ قوی دلیل یا ضرورت کی وجہ سے قیاسِ جلی سے قیاسِ خفی کی طرف منتقل ہونا۔ پہلی مثال : ﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ﴾2:233 (مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو)