کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 9
جا سکتی ہے یا یہ کبھی نہیں ہو سکتا ؟ اگر نصوص میں تعارض نظر آ رہا ہے تو کس نص کو اختیار کیا جائے اور کس کو رد ؟ اگر ایک نص کو دوسری کا ناسخ قرار دیا گیا ہے تو وہ کس وجہ سے ؟ اور اگر ان تمام نصوص کو جمع کرنا ممکن ہے، تو اس کی کیا کیفیت ہو گی یعنی ان میں تطبیق کیسے پیدا کی جائے گی ؟ وغیرہ۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے اجتہاد درکار ہے جو مجتہد سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے اجتہاد میں اصولوں کو اختیار( adopt) کرے، اور جب اس نے ایسا کیا تو وہ اپنے دوسرے اجتہادات میں ان کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اسے انہی اصولوں پر پابند رہنا پڑے گا ورنہ اس کا اجتہاد و استنباط باطل ہو گا کیونکہ ﴿ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ﴾(پس تم خواہش کی پیروی مت کرو)۔ پس اگر اس نے، مثال کے طور پر، کسی مسئلے میں اس اصول کو اختیار کیا ہے کہ حدیثِ مرسل دلیل نہیں ہے، تو یہ کسی اور مسئلے میں اسے بطور حجت استعمال نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اگر اس نے یہ اصول اپنایا ہے کہ امر وجوب کے لئے ہوتا ہے، تو اسے تمام مسائل میں اس اصول پر قائم رہنا پڑے گا۔ نیز اگر وہ اپنے اصولوں کو تبدیل کرتا ہے، تو اسے ان کا بیان و اظہار کرنا چاہیے تاکہ آئندہ ان نئے اصولوں کی بنیاد پر اس کا محاسبہ ہو سکے۔ اس مختصر بیان سے اصولِ فقہ کی ضرورت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اصولِ فقہ میں حکمِ شرعی اور اس کی اقسام، دلائل و مآخذ، الفاظ و دلالات اور اجتہاد و تقلید وغیرہ کی بحث شامل ہے۔