کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 89
ثابت نہیں ہوتا۔ مثال : ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ﴾8:65 (اے بنی ! ایمان والوں کو جہاد کا شوق دلاؤ، اگر تم میں سے بیس بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے ) ﴿ الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ﴾8:66 (اچھا اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتا ہے وہ خوب جانتا ہے تم میں ناتوانی ہے پس اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے) یہاں دوسری آیت کا حکم پہلی آیت کے حکم کو منسوخ کر رہا ہے اور اس کی دلیل دوسری آیت کا یہ حصہ ہے ﴿ الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ ﴾( اچھا اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتا ہے )۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے پہلے کوئی دوسرا حکم تھا جو اس سے قبل نازل ہوا، البتہ اب یہ نیا حکم سابقہ کو منسوخ کر رہا ہے۔ اس مختصر بیان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سابقہ احکام کا فقط اسلامی احکام سے مختلف یا متضاد ہونا نسخ قرار دینے کے لئے کافی نہیں ہے، جب تک ایسی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔ چنانچہ شریعتِ اسلامی نے سابقہ احکام کو ایک ایک کر کے نہیں، بلکہ مجموعی طور پر منسوخ کیا ہے بدلیل مذکورہ۔ البتہ اگر کسی نص میں سابقہ شرائع میں سے کسی حکم کا ذکر ہو، مگر اس میں مسلمانوں سے مخاطب ہونے کا کوئی اشارہ یعنی کوئی قرینہ پایا جائے تو یہ حکم شریعتِ اسلامی کا حکم قرار پائے گا اور اسلامی شریعت کا ایک حکم ہونے کی حیثیت سے اس کا اتباع ہو گا، نہ اس حیثیت سے کہ یہ سابقہ شرائع کا حکم ہے۔ پہلی مثال :