کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 88
یہ آیات اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ شرائع ما قبل ہمارے لئے شرعی ماخذ نہیں ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سابقہ قوموں اور انبیاء کے قصے امت کو بتائے، تو یہ فقط ان سے اخلاقی سبق حاصل کرنے کے لئے ہے، نہ ان کے احکام کی پیروی کے لئے۔ اس کے علاوہ سابقہ شرائع کے کئی احکام ہماری شریعت سے تضاد رکھتے ہیں، اگر یہ خطاب مسلمانوں کے لئے تصور کیا جائے، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ دو مختلف شرائع سے مخاطب کیے گئے ہیں اور یہ امر محال ہے۔ مثلاً:
﴿وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ﴾5:45
( اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت)
اسلام میں ایسا نہیں ہے بلکہ قساس و دیت کے مخصوص احکام ہیں۔ چونکہ سابقہ احکام اسلامی احکام سے متضاد ہیں، اس لئے ان کا مسلمانوں سے مخاطب ہونا محال ہے۔
یہ نہ کہا جائے کہ وہ احکام جو اسلامی احکام کے متضاد ہیں، ان کو اسلامی احکام نے منسوخ کر دیا ہے جبکہ باقی سابقہ احکام کی پیروی ہم پر لازم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی احکام، سابقہ احکام کے ایک ایک کی منسوخی کے لئے نہیں آئے بلکہ یہ پوری انسانیت کے لئے ایک مکمل شریعت کی حیثیت سے آئے ہیں، یہ شریعت تمام سابقہ شرائع کو مجموعی طور پر منسوخ کرتی ہے۔ اس کا سابقہ شرائع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
علاوہ ازیں نسخ کا معنی ایک موجودہ منصوص حکم کو ایک نئے نص سے زائل کرنا ہے کیونکہ نسخ کی تعریف یہ کی گئی ہے : خطاب الشارع المانع من استمرار ما ثبت من حکم خطاب شرعی سابق ( شارع کا وہ خطاب جو سابقہ خطاب سے ثابت شدہ حکم کے استمرار کے لئے مانع ہو)۔ چنانچہ نسخ میں یہ ضروری ہے کہ منسوخ حکم نئے حکم سے پہلے نازل ہوا ہو اور نئی نص میں اس بات کی کوئی دلیل موجود ہو، جو یہ بتائے کہ اس حکم نے پرانے حکم کو زائل کر دیا ہے۔ یہ دلیل لفظِ نسخ، ناسخ یا منسوخ کا استعمال ہو سکتا ہے، یا تاریخ ہو سکتی ہے یا پھر بذاتِ خود نص میں کوئی دلیل۔ اگر یہ دونوں شرائط پوری نہیں ہوتیں تو نسخ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ نصوص میں فقط اختلاف و تضاد سے نسخ