کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 87
یہاں مھیمنا علیہ سے مراد ان کی تصدیق نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ پہلے سے آ چکا ہے( مصدقا)۔ اس کا مطلب ہے کہ قرآن نے سابقہ کتابوں کو منسوخ کر دیا ہے۔ اس امر پر اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی ہے کہ اسلامی احکام سابقہ احکام(شرائع ما قبل) کے ناسخ ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَـٰهَكَ وَإِلَـٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٣﴾ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾2:133-134 (کیا یعقوب علیہ السلام کے انتقال کے وقت تم موجود تھے ؟ جب انھوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے ؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آبا و اجداد ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے، یہ جماعت تو گزر چکی،جو انہوں نے کیا وہ ان کے لئے ہے اور جو تم کرو گے وہ تمہارے لئے ہے ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے ) یہاں اللہ تعالیٰ بتا رہا ہے کہ مسلمانوں سے سابقہ انبیاء علیہ السلام کے اعمال کے بارے میں پوچھ نہیں ہو گی، اس کے باوجود کہ ابنیاء علیہ السلام کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیغام کی تبلیغ کریں اور اس پر عمل بھی کیا جائے۔ چنانچہ مسلمان ان کے خطاب یعنی شرائع سے مخاطب ہی نہیں اور اس کے نتیجے میں نہ ان کی پیروی کے۔ البتہ ان پر ایمان لانا لازم ہے یعنی ان کی نبوت و رسالت اور ان کی کتابوں تصدیق کرنا، کیونکہ قرآن میں ان کا ذکر ہے۔ مگر اس کا مطلب ان کی تابعداری نہیں ہے کیونکہ سابقہ انبیاء علیہم السلام مسلمانوں کے لئے نہیں بھیجے گئے، بلکہ اپنی اپنی قوموں کے لئے : ﴿وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا﴾11:61 (اور قومِ ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا) ﴿ وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا﴾7:65 (اور ہم نے قومِ عاد کی طرف ان کے بھائی ہود علیہ السلام کو بھیجا) ﴿ وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا﴾7:85 (ور ہم نے مدین کی طرف ان کی بھائی شعیب علیہ السلام کو بھیجا)