کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 86
کیا گیا ہے جو نوح علیہ السلام کو کیا گیا تھا اور تیسری آیت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو توحید کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ لفظ ﴿ ملۃ ﴾ سے توحید مراد ہے۔ یعنی وہ توحید جو دین کی بنیاد ہے اور جس میں تمام رسل و ابنیا ء مشترک تھے۔ اس سے شریعت مراد نہیں ہے جو ہر پیغام کے ساتھ( نئی) آئی ہے۔ مندرجہ ذیل آیت اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ ہر قوم کو اللہ تعالیٰ نے مختلف شرائع بھیجی ہیں :
﴿ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا﴾5:48
(تم میں سے ہر ایک کو ہم نے ایک شریعت نازل کی اور ایک راہ)
اس کے علاوہ ہمیں شرائع ما قبل کی پیروی سے منع کیا گیا ہے جس کے کئی دلائل ہیں :
﴿ وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾3:85
(جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہو گا)
﴿ إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ﴾3:19
(ے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے)
ان آیتوں میں اللہ نے یہ صراحتاً یہ بیان کر دیا ہے کہ وہ صرف اسلام کو بطورِ دین قبول کرے گا اور اسلام اس پیغام کا نام ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کی طرف سے، لے کر آئے۔ تو اللہ تعالیٰ بھلا کیسے مسلمانوں کو ان ادیان و شرائع کی پیروی کرنے کا حکم دے سکتا ہے ؟ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ﴾5:48
(اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان پر حاوی ہے)