کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 85
کی روایت کے ذریعے، جو خبرِ و احد ہے۔ علاوہ ازیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بے شمار مسائل میں آپس میں اختلاف رہا ہے، ان میں سے ہر ایک اپنے اجتہاد کی پیروی کرتے تھے، جو دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ کے اجتہاد کے متضاد ہوتا۔ اگر مذہبِ صحابی کو ایک شرعی ماخذ مان لیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے دلائل میں تضاد لازم آئے گا اور یہ امر محال ہے، اس لئے قولِ صحابی شرعی دلیل نہیں ہو سکتا۔ شرائع ما قبل شرائع ما قبل کے قائلین یہ دلائل پیش کرتے ہیں : ﴿ إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ﴾4:163 (یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح علیہ السلام اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی) ﴿ شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا﴾42:13 (اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کر دیا جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا تھا) ﴿ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا﴾16:123 (پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملتِ ابراہیم حنیف کی پیروی کریں) ان دلائل کی بنیاد پر ان کا دعویٰ ہے کہ یہ آیات مسلمانوں سے مخاطب ہیں کہ وہ شرائع ما قبل کی پیروی کریں۔ ان کا کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہم تک پہنچایا ہے، ہم اسے اختیار کریں، سوائے اس کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص ہے یا منسوخ ہو چکا ہے۔ اس بنیاد پر یہ کہتے ہیں کہ مسلمان شرائع ما قبل سے مخاطب ہیں کیونکہ اس کے بارے میں قرآنی آیات میں نہ کوئی تخصیص ہے اور نہ ہی نسخ۔ آیات سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کیونکہ پہلی آیت سے بس یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح وحی اتاری جیسے اس نے نوح علیہ السلام پر اتاری تھی۔ دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی عقیدۂ توحید نازل