کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 84
جہاں تک تیسری حدیث کا تعلق ہے تو فقط اس سے اہلِ بیت کا اجماع ثابت نہیں ہوتا کیونکہ فقط کسی کی ثنا ومدح سے یا کسی کی اقتداء کی تاکید سے اس کا شرعی دلیل ہونا لازم نہیں آتا۔ مثلاً:
’’ اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر و عمر ‘‘(الترمذی)
(میرے بعد جو ہیں ان کی پیروی کرو، ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ )
’’ فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین عضوا علیھا بالنواجذ ‘‘(الدارمی)
(میری سنت کو) مضبوطی) سے تھامو اور خلفائے راشدین مھدیین کی سنت کو، اسے اپنے دانتوں سے پکڑو)
اس بات سے ان کا اجماع ثابت نہیں ہوتا، یعنی یہ شرعی دلیل قرار دینے کے لئے کافی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر خلیفہ عمر ابن عبد العزیز رضی اللہ عنہ بھی خلفاء راشدین میں سے ہیں لیکن کیا اس ثنا و تاکید کی وجہ سے وہ شرعی دلیل ہونے کی حیثیت اختیار کر لیں گے ؟ یہ غلط ہے ! چنانچہ اجماعِ اہلِ بیت شرعی دلیل کی حیثیت نہیں رکھتا۔
قولِ صحابی
ان کا کہنا ہے کہ جب آیت میں سب صحابہ رضی اللہ عنہم کو مجموعی طور پر سراہا گیا ہے تو فرداً فرداً ہر صحابی کے لئے بھی یہ موجب ٹھہرا۔ نیز حدیث میں ہے :
’’ اصحابی کالنجوم بأیھم اقتدیتم اھتدیتم ‘‘(رزین)
(میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کسی کی بھی اقتدا کرو گے تو ہدایت پکڑو گے)
یہ کہنا غلط ہے کہ جب سب صحابہ رضی اللہ عنہم کی مجموعی طور پر مدح کی گئی تو یہ ہر صحابی کے لئے انفرادی طور پر بھی لازم ہوئی۔ یہ اس لئے کیونکہ آیت میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو ایک گروہ کی حیثیت سے سراہا گیا ہے نہ انفرادی حیثیت سے، کیونکہ آیت میں صیغۂ جمع کا استعمال ہوا ہے : ﴿اتَّبَعُوهُم﴾ 9:100۔ علاوہ ازیں یہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ فقط مدح سے کسی کو ایک شرعی دلیل ہونے کا رتبہ حاصل نہیں ہوتا۔ جہاں تک اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی بات ہے تو یہ اس آیت میں مطلقاً مدح اور ان کے قرآن پر اجماع، دونوں سے ثابت ہے۔ قرآن ہم تک اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم کی بدولت تواتر کے ساتھ پہنچاہے نہ کہ ایک صحابی کے قول