کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 82
ان کا کہنا ہے کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ بیت سے الرجس(گندگی) کی نفی کی ہے اور چونکہ خطا الرجس ہے، اس لئے یہاں غلطی کی نفی مراد ہے یعنی عصمت لازم آتی ہے، لہذا اہلِ بیت کا اجماع حجت ہے۔ نیز یہاں إنما حصر کے لئے ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ فقط اہلِ بیت کا اجماع ہی مقبول ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی نص اپنی دلالت میں ظنی ہے، اسی لئے اس کی تفسیرات میں اختلاف ہے جبکہ احادیث خبرِ آحاد ہونے کی وجہ سے اپنے ثبوت میں ظنی ہیں، اس لئے یہ دلائل اصول میں حجت نہیں ہو سکتے۔ علاوہ ازیں یہاں الرجس سے مراد گندگی ہے اور یہ گندگی معنوی اعتبار سے ہے یعنی ریبت اور تہمت۔ آیت سے مراد یہ ہے کہ اہلِ بیت سے ریبت اور تہمت دور کر دی گئی ہے۔ اس لفظ کا یہی مطلب کئی آیات سے ثابت ہے، مثلاً: ﴿ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ ﴾22:30 (پس بتوں کی گندگی سے بچو) ﴿ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ﴾5:90 (شراب اور جوا اور بت اور پانسے )یہ سب) گندے کام اعمالِ شیطان سے ہیں ) لہذا الرجس کا دور ہونے کا مطلب غلطی کا دور ہونا ہرگز نہیں ہے کیونکہ غلطی الرجس میں شامل ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اجتہاد میں غلطی باعثِ ثواب ہے، تو یہ گندگی کیسے ہو سکتی ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’ إذا حکم الحاکم فاجتھد ثم أصاب فلہ أجران و إذا حکم فاجتھد ثم أخطأ فلہ أجر ‘‘(متفق علیہ) (جب قاضی کا اجتہاد اسے صحیح نتیجے تک پہنچائے تو اس کے دو ثواب ہوں گے اور جب اس کا اجتہاد اسے غلط نتیجے تک پہنچائے تو اس کا ایک ثواب ہو گا) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں اہلِ بیت کے الرجس کی نفی سے غلطی کی نفی مراد نہیں ہے۔ نیز﴿ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ ﴾ میں إنما حصر کے لئے نہیں ہے، یعنی اس کا مطلب یہ نہیں لیا جائے گا کہ اہلِ بیت کے علاوہ کسی اور کے لئے الرجسکی نفی