کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 81
اس کی روشنی میں امت کی عصمت کا کیسے دعویٰ کیا جا سکتا ہے ؟ تیسری حدیث مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہونے کو منع کر رہی ہے، یہ موضوع وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا : ﴿ وَلَا تَفَرَّقُوا﴾(اور تفرقہ مت کرو)۔ اس موضوع کا اجماعِ امت سے کوئی تعلق نہیں، یہ نصوص مسلمانوں کو امت سے علیحدہ ہونے سے روک رہے ہیں، چنانچہ یہ موضوع کے لئے استدلال کا محل نہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ امت کا ایک حرام عمل پر یا فرض کی کوتاہی پر اکٹھا ہونا ممکن ہے۔ حقیقت سے یہ بات ظاہر کیونکہ امت نے 1924 ؁ ء سے لے کر اب تک قیامِ خلافت کی فرضیت سے کوتاہی کی ہے، نیز یہ کئی دہائیوں سے اپنے اوپر کفریہ نظاموں کو قبول کر رہی ہے۔ لہذا اجماعِ امت دلیل کی حیثیت نہیں رکھتا۔ اجماع اہلِ بیت ان کا کہنا ہے کہ اہلِ بیت سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کی اولاد ہے، اور یہ کہ انہی کا اجماع دلیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے یہ دلائل اکثر پیش کئے جاتے ہیں : ﴿ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴾33:33 (اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ تم سے وہ ہر قسم کی گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے) ’’ اللَّھم ھؤلاء أھل بیتی ‘‘(الترمذی) (اے اللہ یہ( آلِ علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما ) میرے اہلِ خانہ ہیں ) ’’ إنی قد ترکت فیکم ما إن أخذتم بہ لن تضلوا کتاب اللّٰہ وعترتی أھل البیتی ‘‘(الترمذی) (بے شک میں نے اپنے پیچھے جو چھوڑا ہے اگر تم اسے تھام لو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے، اللہ کی کتاب اور میرا خاندان، میرے اہلِ خانہ)