کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 80
دین میں الھدی(ہدایت) الضلال( گمراہی) کی ضد ہے۔ البتہ فروعات میں اس کا اتباع نہ کرنا فسق ہے نہ کہ گمراہی یعنی اس پر ہدایت کا اطلاق نہیں ہو گا۔ یہاں مومنوں کی راہ سے مراد توحید ہے جسے اختیار کرنا لازم ہے جبکہ مباحات میں یہ لازم نہیں آتا۔ نیز آیت کا سببِ نزول اس بات کو واضح کر دیتا ہے کیونکہ یہ آیت ایک شخص کے ارتداد کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی، جس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قاعدہ ہے : العبرہ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب(لفظ کے عموم کا اعتبار ہو گا نہ اس کے خاص سببِ نزول کا) تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ یہ قاعدہ سر آنکھوں پر مگر یہ اپنے موضوع تک ہی محدود رہتا ہے، اس کا اطلاق دوسرے موضوعات پر نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں آیت کا سببِ نزول اس کے موضوع کو تعین کر رہا ہے یعنی ارتداد، دوسرے لفظوں میں یہاں ایمان و کفر کی بات ہو رہی ہے۔ پس چونکہ آیت کا موضوع ارتداد کے لئے خاص ہے، اس لئے یہ مومنوں کی راہ میں ہر چیز کے بارے میں عام نہیں ہے۔ نیز کسی بات کی نہی اس کی ضد پر امر مراد نہیں ہوتا۔ یعنی کسی بات کی تحریم یہ ثابت نہیں کرتی کہ اس کی ضد کا قیام واجب ہے، کیونکہ امر و نہی پر دلالت، لغوی دلالت ہوا کرتی ہے نہ عقلی و منطقی۔ پس جیسے کسی بات کی نہی اس کی ضد کو واجب قرار نہیں دیتی، اسی طرح کسی بات کے امر سے اس کی ضد پر نہی لازم نہیں آتی۔ چنانچہ یہاں مومنوں کی راہ کے علاوہ اتباع کی نہی سے، مومنوں کی راہ کے اتباع کا امر(حکم) ثابت نہیں ہو رہا، بلکہ اس اتباع کے واجب ہونے کے لئے کوئی ایسی نص درکار ہے، جو امر پر دلالت کرے۔ جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو یہ ساری آحاد ہیں یعنی ظنی اور اس لئے اس موضوع میں ان کا استعمال صحیح نہ ہو گا۔ یہ کہنا صحیح نہیں کہ اس موضوع پر کثیر احادیث موجود ہیں لہذا یہ اپنے موضوع کے اعتبار سے متواتر ہیں، کیونکہ اخبارِ آحاد کی جمع کسی حدیث کو متواتر کے درجے تک نہیں پہنچاتی۔ علاوہ ازیں پہلی حدیث اپنی سند میں ضعیف ہے۔ دوسری حدیث میں ضلالۃ سے مراد گمراہی ہے یعنی کفر۔ دوسرے لفظوں میں ان نصوص سے مراد یہ ہے کہ پوری امت مجموعی طور پر اسلام کو ترک نہیں کرے گی، یعنی مجموعی ارتداد سے اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرے گا، یہ اجماعِ امت کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے۔ یہ نصوص ہرگز امت کی عصمت پر دلالت نہیں کر رہے، یعنی اس بات پر کہ امت کسی غلطی پر اکٹھی نہیں ہو سکتی بلکہ ان کی ثنا و مدح کر رہے ہیں۔ البتہ ایسے نصوص بھی ہیں جو ان سے معارض ہیں اور جو امت کی مذمت کرتے ہیں، مثلاً : ’’ ثم یفشو الکذب حتی یحلف الرجل ولا یستحلف ویشھد الشاھد ولا یستشھد ‘‘( الترمذی) (پھر جھوٹ غالب ہو جائے گا اور لوگ حلف اٹھائیں گے اگرچہ ان سے یہ طلب نہ کیا گیا ہو اور گواہی دیں گے اگرچہ ان سے نہ پوچھا گیا ہو)