کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 8
اس کے اجتہاد و استنباط کو پرکھا جا سکے۔
چونکہ حکمِ شرعی کے استنباط سے مراد کسی بات کو اللہ تعالیٰ کا قصد قرار دینا ہے، اس لئے یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، جس میں انتہائی احتیاط اور عمیق( گہری) فکر درکار ہے۔ چنانچہ فقط ایک آیت یا حدیث کو پڑھ کر، اس سے اللہ کا حکم نہیں سمجھا جا سکتا، خواہ بظاہر ایسا لگے۔
مثال :
﴿ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ﴾
(اور اپنے میں سے دو پرہیزگار مردوں کو گواہ کر لو)۔
﴿ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ﴾
( وہ تم میں سے دو پرہیزگار ہوں یا دوسروں ) کافروں ) میں سے دو)۔
﴿ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ﴾
( اور اپنے میں سے دو مردوں کی گواہی کر لو اور اگر یہ نہ ہو سکے تو ایک مرد اور دو عورتوں کی)۔
﴿ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٤﴾ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا ﴾
(جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، یہ فاسق لوگ ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لیں ۔ ’’ أن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قضی بالیمین مع شاھد الواحد ‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قسم اور ایک گواہ)کی بنیاد) پر فیصلہ دیا)۔ جبکہ ایک دوسری حدیث میں، رضاعت کے معاملے میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عورت کی گواہی کو قبول کرنا بھی ثابت ہے۔
یہ تمام نصوص گواہی کے ضمن میں وارد ہوئے ہیں، اب ان سب کو کیسے سمجھا جائے ؟ کبھی یہ کہا جا رہا ہے کہ فقط مسلمان کی گواہی مقبول ہے جبکہ کسی اور جگہ پر کافر کی گواہی کو بھی قبول کیا جا رہا ہے۔ ایک نص میں دو مسلمان مردوں کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ دوسری میں ایک مرد کی گواہی پر اکتفاء کیا گیا ہے۔ کہیں پر دو عورتوں کا ذکر ہو رہا ہے جبکہ کسی اور جگہ پر ایک عورت کی گواہی کی مقبولیت ثابت ہے۔ کیا اس کی توبہ کرنے کے بعد قاذف کی گواہی قبول کی