کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 79
اجماعِ امت / اجماعِ علماء ان دونوں اجماع کی قسموں کو ایک ہی عنوان میں اس لئے جمع کیا گیا ہے کیونکہ ان کے مشترکہ دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔ وہ اکثر یہ ہیں : ﴿ وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴾4:115 (جو شخص باوجود راہِ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑکر چلے،ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے،وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے) ’’ أمتی لا تجتمع علی الخطأ ‘‘(ابن ماجہ) (میری امت غلطی پر جمع نہیں ہو گی) ’’ أمتی لا تجتمع علی ضلالۃ ‘‘(ابن ماجہ) (میری امت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہو گی) ’’ من فارق الجماعۃ شبرا فمات إلا مات میتۃ جاہلیۃ ‘‘(البخاری) (جو جماعت سے بال برابر بھی علیحدہ ہوا وہ جاہلیت کی موت مرا) آیت کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہاں ان لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی وعید ہے جو مومنوں کی راہ کو چھوڑکر کسی دوسری راہ کا اتباع کرتے ہیں۔ اگر یہ حرام نہ ہوتا تو اس پر وعید نہ ہوتی، اور چونکہ یہ حرام ہے لہذا مومنوں کی راہ اختیار کرنا واجب ٹھہرا اور یہاں سے امت کا اجماع بحیثیت دلیل ثابت ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ یہ نص اپنے ثبوت میں قطعی ہے مگر اپنی دلالت میں ظنی ہے اور اس لئے یہ ظنی ہے، چنانچہ یہ اصول میں دلیل کی حیثیت نہیں رکھتی کیونکہ اصول کی دلیل کا قطعی ہونا لازم ہے۔ اس کے علاوہ آیت میں الھدی سے مراد اللہ تعالیٰ کی واحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہے یعنی توحید نہ کہ حکمِ شرعی، کیونکہ اصولِ