کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 78
لہذا واضح ہو جانا چاہیے کہ علت اور حکمت میں بہت بڑا فرق ہے۔ نیز احکام کے استنباط کے لئے اس کے دلائل کی طرف رجوع کیا جائے گا، نہ شریعت کے مقاصد و نتائج کی طرف۔ یہ اس لئے کیونکہ حکم اپنی دلیل سے ثابت ہوتا ہے نہ اپنی حکمت سے۔ اسی لئے فقہ کی یہ تعریف بتائی گئے ہے : علم بالمسائل الشرعیۃ العملیۃ المستنبطۃ من أدلتھا التفصیلیۃ(شریعت کے ان عملی مسائل کا علم جو کہ ان کے تفصیلی دلائل سے مستنبط کیے گئے ہوں)۔
آج انہی اسلامی اصطلاحات ’’ مقاصدِ شریعت ‘‘،’’ مصلحت ‘‘ اور ’’ حکمت ‘‘ کی آڑ میں، صریح احکام و نصوص کے خلاف باتیں بنائی جا رہی ہیں اور سرکاری سطح پر بھی ایسے فتاویٰ جاری کئے جا رہے ہیں جو اسلام کے خلاف ہیں۔ یہ سب کچھ، استعماری قو وتوں کی خاطر، کفر کو اسلامی لبادہ چڑھانے کی کوششیں ہیں تاکہ مغربی افکار و نظریات یعنی مغربی تہذیب، مسلمانوں کے معاشرے میں پروان چڑھے اور اس سے ان کے مفادات کو تحفظ مل سکے۔ اس کی ایک مثال اسلامی ممالک کے تعلیمی نصاب میں وہ تبدیلیاں ہیں جو امریکہ کی امداد سے کی جا رہی ہیں تاکہ مسلمانوں کی مستقبل کی نسلیں مغرب وفادار پیدا ہوں۔ استعماری قو وتوں کی اس سازش کو مسلمانوں کے حکمران، بڑی بے قراری سے عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ چنانچہ امت کے لئے اسلام میں ان افکار کی حقیقت کو جان لینا انتہائی اہم ہے تاکہ یہ دشمنانِ اسلام کی اس چال سے خبردار رہے اور ان کے خلاف فکری و سیاسی تحریک چلا سکے۔
وہ جو دلیل نہیں ہے
یہ بتایا جا چکا ہے کہ اصولِ احکام اصولِ دین کے موافق ہیں اس لئے ان میں ظن کی کوئی گنجائش نہیں، چنانچہ صرف جو دلائل قطعی ہیں ان کا اعتبار ہے اور وہ فقط یہ چار ہیں : قرآن، سنت، اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور شرعی علت والا قیاس۔ بعض مجتہدین نے ان کے علاوہ دلائل سے بھی استنباط کیا ہے مگر چونکہ یہ یا تو ظنی ہیں یا بلا دلیل یا پھر موضوع کے لئے استدلال کا محل نہیں، اس لئے حقیقت میں یہ دلائل کی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ یہ ہیں : اجماعِ امت/ اجماعِ علماء، اجماعِ اہلِ بیت، شرائع ما قبل، قولِ صحابی، استحسان اور مصلحہ مرسلہ۔ ان کی تردید ملاحظہ ہو: