کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 77
(اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالیٰ تمام دنیا سے بے پرواہ ہے) جب حج کے فریضے کو کسی علت سے مربوط نہیں کیا گیا تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ حج اس وجہ) باعث) سے فرض کی گئی ہے کہ اس میں ہمارے لئے فائدہ ہے ؟ البتہ یہ حکمِ حج کی حکمت ضرور ہے۔ حدیث شریف میں مذکورہ عورتوں سے شادی نہ کرنے کی وجہ قطعہ رحمی بتائی گئی ہے، یہ حکم کی علت نہیں بلکہ اس کی حکمت ہے۔ علت ہونے کی صورت میں اگر قطعہ رحمی نہیں پائی گئی تو ان سے نکاح جائز ہو جائے گا کیونکہ حکم کا باعث غیر موجود ہے اور یہ سراسر غلط ہو گا۔ چنانچہ یہ حکم کی حکمت ہے۔ اسی طرح ’’ مقاصدِ شریعت‘‘ یا ’’ جلبِ مصلحت و دفعِ مفاسد‘‘ نہ مجموعی طور پر شریعت کی علل ہیں اور نہ ہی ہر حکم کی عینی طور پر، نیز یہ احکام کے دلائل بھی نہیں ہیں۔ البتہ یہ شریعت کی غایت و مقصد یعنی حکمت ضرور ہیں۔ چنانچہ مثال کے طور پر یہ کہنا بالکل غلط ہو گا کہ چور کے ہاتھ کاٹنے کی علت انفرادی ملکیت کا تحفظ ہے۔ یہ اس لئے کیونکہ چور کے ہاتھ کاٹنے کی دلیل یہ آیت ہے : ﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا ﴾5:38 (اور چور، مرد ہو یا عورت، ان کے ہاتھ کاٹ دو) یہاں سزا کی ایک معین علت ہے نہ کہ انفرادی ملکیت کے تحفظ کی مطلق علت، اسی لئے یہ ایک خاص حکم کی خاص علت ہے، نہ انفرادی ملکیت کے تحفظ کی سزا کے لئے عام علت کیونکہ نص میں اس کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ یہاں السارق( چور) وصفِ مفہم ہے اور یہ قطع(کاٹنا) کے لئے مناسب ہے، چنانچہ قطع کی وجہ السرقۃ (چوری) ہے یعنی ہاتھ کاٹنے کی علت چوری ہے، جو نص سے ظاہر ہے۔ انفرادی ملکیت کے تحفظ کو علت قرار دینے سے یہ لازم آئے گا کہ ہر اس صورت میں ہاتھ کاٹا جائے جب بھی کوئی کسی کی ملکیت پر قابو پالے۔ یہ غلط ہو گا کیونکہ مثلاً غصب کے معاملے میں غاصب کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، کیونکہ شریعت نے اس کی یہ سزا نہیں ٹھہرائی۔