کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 76
شرعی نصوص سے مجموعی طور پر پوری شریعت کا حکمت ہونا ثابت ہے اور بعض احکام کا عینی طور پر بھی۔ مثلاً:
﴿ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴾21:108
(ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے)
یہاں پر شریعت کا رحمت سے موصوف ہونا اس کے نتیجے کی حیثیت سے ہے، نہ اس کے تشریع کا باعث ہونے کی حیثیت سے۔ یعنی شریعت کا سب انسانوں کے لئے رحمت ہونا اس کی حکمت ہے نہ کہ علت، کیونکہ آیت میں تعلیل
کا صیغہ نہیں پایا گیا۔
حکمت کی دیگر مثالیں :
﴿ لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ ﴾22:28
(تاکہ تم( حج میں ) نفع دیکھ سکو)
’’ لا تنکح المرأۃ علی عمتھا ولا علی خالتھا ولا علی ابنۃ أخیھا ولا علی ابنۃ أختھا فإنکم إن فعلتم ذلک قطعتم أرحامکم ‘‘
(متفق علیہ)
(ایک عورت کو اس کی چچی اور خالہ کے ساتھ نہ بیا ہو اور نہ ہی اس کے بھائی اور بہن کی بیٹیوں کے ساتھ ورنہ تم اپنا رشتہ توڑ ڈالو گے )
آیت میں حج کے دوران نفع پانا حکم کی حکمت ہے نہ کہ علت۔ یہ اس لئے کیونکہ ممکن ہے کہ حج کرنے میں کوئی نفع نہیں بلکہ نقصان ہو، مثلاً جسم کے کسی عضو یا جان کا، جیسا کہ بعض اوقات واقعتاً ہوتا ہے۔ نیز اسے علت قرار دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر نفع نہیں پایا جائے تو حکم ساقط ہو جائے گا کیونکہ حکم کا باعث موجود نہیں، جبکہ حج کی فرضیت کا حکم اس آیت سے ثابت ہے :
﴿وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ﴾3:97