کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 75
(قاضی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ دے)
یہاں ’’ غصہ‘‘ وصفِ مفہم ہے اور حکمِ اصل فیصلہ دینے کی نہی ہے۔ اس نہی کی علتِ دلالتاً’’غضبان ‘‘(غصہ) ہے کیونکہ یہ فیصلے کو متاثر کرتا ہے، اس لئے غصے کے وصف اور حکم کے مابین مؤثرہ تعلق ’’فکر کی تشویش‘‘ ہے۔ اس مؤثرہ تعلق کی وجہ سے موجودہ وصف یعنی غصے اور نئے اوصاف میں قیاس کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان میں، مؤثرہ تعلق میں، اشتراک پایا جائے، تو اس صورت میں نئی علت نکالنا ممکن ہو گا۔ مثال کے طور پر ’’بھوک‘‘ کو ’’غصے ‘‘ پر قیاس کیا جائے گا کیونکہ ان دونوں میں مؤثرہ تعلق کا اشتراک واقع ہے جو ’’ فکر کی تشویش‘‘ ہے۔ لہذا قیاس کے ذریعے ’’ بھوک ‘‘(نئی وصفِ مفہم) کی نئی علت نکالی گئی ہے اور اس لئے بھوک کی حالت میں فیصلہ دینا بھی ناجائز ٹھہرا۔
انطباقِ حکم کے اعتبار سے علتِ دلالتاً اور علتِ قیاساً میں یہ فرق ہے : علتِ دلالتاً میں نئے مسئلے پر حکم کا انطباق اس صورت میں ہوتا ہے جب اس نئے مسئلے میں اصل وصفِ مفہم کا اشتراک واقع ہو یعنی نیا مسئلہ اسی وصف کے اندر آتا ہے اور نئے احکام اسی کی بنیاد پر اخذ کئے جاتے ہیں، جبکہ علتِ قیاساً میں نیا مسئلہ اصل وصفِ مفہم کے زیرِ سایہ نہیں آتا بلکہ حکم کا انطباق نئی علت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں نئے احکام کو ایسے نئے اوصاف کی بنیاد پر اخذ کیا جاتا ہے جن میں مؤثرہ تعلق کا اشتراک ہو۔ مثلاً چرنے والے اونٹوں پر زکوٰۃ اس لئے ہے کیونکہ اس میں چرنے کا اصل وصف موجود ہے یعنی وصف کا اشتراک۔ اس کے برعکس’’ بھوک‘‘ کا وصف’’ غصے ‘‘ کے وصف سے مختلف ہے، البتہ یہاں پرانے وصف کے مؤثرہ تعلق میں اشتراک واقع ہوا ہے نہ بذاتِ خود وصف میں۔
علت اور حکمت میں فرق
سابقہ ذکر سے یہ ظاہر ہے کہ علت حکم کی تشریع کے باعث کو کہتے ہیں یعنی حکم اس کی وجہ سے ہے، جبکہ حکمت حکم کی غایت و نتیجے کو کہا جاتا ہے۔ علت اپنے وجود اور عدم میں ہمیشہ معلول کے موافق ہوتی ہے کیونکہ یہ حکم کا باعث ہے، جبکہ حکمت کا حقیقت میں ظاہر ہونا لازمی نہیں ہے یعنی یہ بعض حالات میں ظاہر ہو سکتی ہے اور دوسرے حالات میں نہیں بھی۔ علت چونکہ حکم کا باعث ہے اس لئے یہ حکم سے قبل موجود ہوتی ہے جبکہ حکمت چونکہ حکم کا نتیجہ ہے اس لئے یہ حکم کے بعد وجود میں آتی ہے یعنی حکم کے نفاذ کے نتیجے میں۔ علت ہو یا حکمت، بہرحال لازمی ہے کہ یہ نصوص میں وارد ہوں ورنہ ہماری عقل ان کے ادراک سے قاصر ہے۔