کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 74
نص، بغیر کسی وجہ کے، صرف مذکورہ تین اشیاء میں مسلمانوں کی شراکت بتا رہی ہے۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف اور مدینہ میں پانی کو انفرادی ملکیت بننے کی اجازت دینا بھی ثابت ہے۔ چنانچہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ پانی میں کوئی ایسا وصف ہے جو اسے ایک حالت میں انفرادی ملکیت بننے کی اجازت دیتا ہے اور کسی دوسری حالت میں اس سے روکتا ہے۔ وہ پانی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کی ملکیت میں دیا، اس لئے تھا کہ یہ لوگ اپنے باغات کو پانی دے سکیں یعنی محدود مقدارجس پر معاشرہ منحصر نہیں تھا، جبکہ دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کو انفرادی ملکیت بننے سے منع فرمایا اور سب کو اس کے استعمال میں شریک ٹھہرایا ہے۔ ان نصوص سے یہ سمجھا گیا ہے کہ جو بات پانی کو انفرادی ملکیت بننے سے روکتی ہے وہ معاشرے کو اس کی ضرورت ہے، چنانچہ ’’ معاشرے کی ضرورت ‘‘ کو علت کی حیثیت سے مستنبط کیا گیا ہے اور یہی علتِ استنباطاً ہے۔ یہ اس حدیث میں وارد تین اشیاء تک محدود نہیں بلکہ تمام اشیاء جن میں یہ علت پائی جائے، وہ ملکیت عامہ ٹھہریں گی اور اس کی انفرادی ملکیت ناجائز ہو گی۔ البتہ اگر علت نہ پائی جائے تو یہ جائز ہو گا۔ اس علت کی وجہ سے عام ملکیت میں تیل، گیس، بجلی وغیرہ بھی شامل ہیں اور ان کی عوام تک رسائی اسلامی ریاست یعنی خلافت کی ذمہ داری ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آج سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے جو بڑی بڑی کمپنیاں عوام کے ذخائر پر قابو پا لیتی ہیں اور اس وجہ سے ان کی رسائی کی عوام سے منہ مانگی قیمت لیتی ہیں، جو مہنگائی کا باعث بنتا ہے، یہ سب اسلام میں ناجائز ہے کیونکہ یہ ملکیتِ عامہ ہے۔
قیاساً : جب نص میں علتِ دلالتاً ہو اور اس کے اور حکمِ اصل کے مابین کوئی مؤثرہ تعلق(وصفِ مفہم) موجود ہو، تب اس مؤثر تعلق کی وجہ سے، علتِ دلالتاً پر کسی نئی علت کا قیاس کیا جائے، جو ان دونوں میں مشترکہ ہے، تو اس نئی علت کو ’’قیاسی ‘‘ کہا جاتا ہے۔ مثلاً یہ حفاظتی ہدایت : ’’تھکاوٹ کی حالت میں گاڑی مت چلائیں ‘‘۔ یہاں تھکاوٹ اور حکم کے مابین مؤثر تعلق یہ ہے کہ تھکاوٹ میں گاڑی چلانا کسی سانحہ کا سبب بن سکتا ہے۔ چونکہ یہاں اصل وصف اور حکم کے مابین مؤثر تعلق پایا گیا ہے، اس لئے موجودہ وصف اور کسی ایسے نئے وصف کے مابین قیاس کرنا ممکن ہے جس میں یہ مشترکہ مؤثر تعلق پایا جائے۔ چنانچہ کھچاؤ(stress)کو تھکاوٹ پر قیاس کیا جائے گا کیونکہ ان دونوں میں مؤثرہ تعلق مشترکہ ہے یعنی کھچاؤ بھی کسی سانحہ کا سبب بن سکتا ہے، اس لئے یہ نئی علت جو قیاس سے ثابت کی گئی ہے، علتِ قیاساً کہلاتی ہے۔
مثال :
’’ لا یقضی القاضی و ھو غضبان ‘‘(متفق علیہ)