کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 73
یہاں ’’ دشمن پر دھاک بٹھانا‘‘ دشمنی کے لئے وصفِ مفہم مناسب ہے۔ یعنی علت ’’ ترھبون بہ عدواللّٰہ وعدوکم ‘‘(دشمن پر دھاک بٹھانا) ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آج مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایسے ہتھیار کا بندوبست کریں جس سے استعماری قو توں میں، جو اسلام کی بڑی دشمن ہیں، مسلمانوں سے خوف پیدا ہو۔ اس لئے آج مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ جدید ترین ٹیکنولوجی، جس میں ٹینکس و مزائلز اور جنگی طیارے وغیرہ بھی شامل ہیں، کی تیاری کریں(حکم) تاکہ دشمنانِ اسلام میں خوف) علت) کا حصول ہو سکے۔
2) علتِ دلالتاً کادوسرے زمر ہ ان الفاظ کا استعمال ہے جو اصلاً لغت میں تعلیل کا معنی نہیں ادا کرتے مگر یہ ان کے مفہوم سے سمجھا جاتا ہے یعنی ان کے مدلولِ لفظ سے۔ اس کی پانچ اقسام ہیں۔ البتہ یہاں ایک مثال پر اکتفاء کیا جا رہا ہے :
’’ من أحیا أرضا میتۃ فھی لہ ‘‘(البخاری)
(جس کسی نے بنجر زمین کی احیاء کی وہ اسی کی ہو گئی)
یہاں حرف ’’فاء‘‘ تعقیب(نتیجہ) کے لئے ہے، اس لئے بوجہ ترتیب یہ تسبیب) کسی تک پہنچنے کا ذریعہ بننا) کا معنی ادا کر رہا ہے اور’’ زمین کی احیاء‘‘ کو اس کی ملکیت کی علت قرار دے رہا ہے۔ یعنی ترتیب میں پہلے زمین کی احیاء ہے اور اس کے نتیجہ میں زمین کی ملکیت۔ چنانچہ زمین کی کاشت یا اس پر عمارت بنانے سے کوئی شخص زمین کا مالک بن جاتا ہے۔ حرفِ’’ فائ‘‘ اصل میں تعلیل کا فائدہ نہیں دیتا مگر یہاں اس کے سیاق سے، اس کے علت ہونے کا مفہوم سمجھا گیا ہے، اسی لئے یہ علت دلالتاً ہے نہ صراحتاً۔
استنباطاً : یہ علت نہ صراحتاً اور نہ دلالتاً الفاظ و کلمات میں مذکور ہوتی ہے بلکہ اسے ایک یا متعدد معین نصوص کی ترکیب سے مستنبط کیا جاتا ہے۔
مثال :
’’ المسلمون شرکاء فی ثلاثۃ: الماء والکلاء والنار ‘‘(أبو داود)
(مسلمان تین چیزوں میں شرکاء ہیں : پانی، گھاس اور آگ)