کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 72
دلالتاً : نص کے الفاظ، یا اس کی ترکیب یا ترتیب جس مفہوم پر دلالت کریں، یعنی لفظ کے منطوق سے نہیں بلکہ اس کے مفہوم سے یہ علت سمجھی جائے۔ اسے ’’ دلالتِ تنبیہ و ایماء‘‘( the indication of notification)بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں دلالت ایک علت کی تنبیہ کر تی ہے۔ یہ دو طرح سے ہوتا ہے :
1) جب حکم کو وصفِ مفہم سے جوڑا جائے، اور اس طور پر یہ مفہومِ موافقہ(congruent meaning) ہو یا مفہومِ مخالفہ( opposite meaning)اور اس حال میں علت کی وصف معتبر ہو۔ دوسرے لفظوں میں جب نص کوئی ایسا وصف بتائے جس کا اس کے حکم سے عقلی رابطہ ہو۔ یہ رابطہ نص میں صریح طور پر موجود نہ ہو بلکہ اس کے مفہوم سے سمجھا جائے۔
پہلی مثال :
’’ فی الغنم السائمہ زکاۃ ‘‘(أبو داود)
(گھاس چرنے والی بھیڑوں پر زکوٰۃ ہے)
یہاں پر وہ وصف جو حکم کو وجود میں لاتا ہے ’’چرنا‘‘ ہے۔ چرنے کے مفہوم پر غور کرنے سے یہ سمجھا گیا ہے کہ اس سے مراد کھلے چراگاہ سے چرنا ہے جو کہ عام ملکیت میں سے ہے۔ اس لئے عوام کے وسائل کے استعمال کو زکوٰۃ کی شکل میں لوگوں کو لوٹایا جائے۔ چنانچہ اگر کسی چھوٹے باڑے میں بھیڑوں کو چروایا گیا ہو تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہو گی۔ لہذا یہاں علت ’’ عام ملکیت سے چروانا ‘‘ہے، اس لئے اگر اونٹوں نے یہاں سے چرا ہو تو ان پر بھی زکوٰۃ عائد ہو گی۔ نص میں وصف اور حکم کے مابین تعلیل صریح طور پر مذکور نہیں ہے اس لئے یہ صریح علت نہیں ہے، البتہ چونکہ اسے لفظِ السائمہ(چرنے والی) اور اس کے حکم کے رابطہ سے سمجھا گیا ہے (وصفِ مفہم)، اس لئے یہ علت دلالتاً ہے یعنی علت تنبیہاً نص کے مفہوم سے سمجھی گئی ہے، نہ اس کے منطوق سے۔
دوسری مثال :
﴿ وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ ﴾8:60
(اور تم( ان کے خلاف) مقدور بھر تیاری کرو قوت اور پلے ہوئے گھوڑے تاکہ تم اس سے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن پر دھاک بٹھا سکو)