کتاب: اصول فقہ (محمد علی ) - صفحہ 70
میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿ لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ ﴾(تاکہ تم اس)حج) میں اپنے فائدے کے کام دیکھ سکو)۔ یہاں خواہ کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، حج کا حکم باقی رہے گا۔ یعنی یہ حکم پر مؤثر نہیں ہو رہا۔ 5) یہ مطردۃ ہو۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وصف اور حکم کے مابین وجہ و نتیجہ(cause-effect) کا تعلق ہو۔ یعنی علت ہو گی تو حکم ہو گا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اسے اصطلاح میں ’’نقض‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جس طرح وجہ و نتیجہ میں ہمیشہ نتیجہ وجہ پر انحصار کرتا ہے، اسی طرح حکم اپنی علت پر منحصر ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ﴾33:59 (اے نبی ! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنے جلباب لٹکا لیں اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر یہ نہ ستائی جائیں گی) چونکہ ستائے جانے اور جلباب پہننے کے حکم میں کوئی وجہ و نتیجہ کا تعلق نہیں پایا جاتا، اس لئے ’’ یؤذین‘‘(ستائے جانے) کو حکم کی علت نہیں قرار دیا جا سکتا۔ 6) یہ متعددیہ ہو۔ یعنی اسے دوسری)نئی) فروعات پر منطبق کیا جا سکے ورنہ قیاس کرنا محال ہے۔ مثلاً چوری چور کے ہاتھ کاٹنے کی وجہ ہے مگر چونکہ اسے دوسرے واقعات پر لاگو نہیں جا سکتا، اس لئے یہ علت قاصرہ ٹھہری اور اس لئے اسے علت نہیں گردانا گیا، بلکہ حکم کی علامت یعنی سبب ٹھہرایا گیا ہے۔ 7) علت کسی اصل کے حکم کا محل نہ ہو۔ 8) یہ قرآن، سنت اور اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی کسی نص کے خلاف نہ ہو۔